ٹوٹی کشتی کا سفر ہو تو کنارا کیسا
اس نے یہ کہ کے مِرا بوجھ اُتارا کیسا
جیت لے جو بھی تجھے، اُس کو خسارا کیسا
کوئی دل ہار کے ہارا تو وہ ہارا کیسا
یوں تو کہنے کو رہا سارا زمانہ اپنا
جب کوئی ہاتھ نہ تھامے تو سہارا کیسا
رنجِ محرومئ منزل سے وہیں بیٹھ گئے
اس نے جب ہنس کہا؛ ساتھ ہمارا کیسا
گردشِ شمس و قمر ہی نے ڈبویا تھا ہمیں
اب ہتھیلی پہ چمکتا ہے ستارا کیسا
اک وہی شخص تو احساس کا قاتل نکلا
دیکھنے میں جو تھا معصوم سا پیارا کیسا
عرفانہ امر
No comments:
Post a Comment