Thursday 1 February 2024

طواف گنبد خضریٰ جو راس آیا مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


طوافِ گنبدِ خضریٰ جو راس آیا مدینے میں

نظر نے اک سرورِ جاوداں پایا مدینے میں

یہاں سب کچھ بقدرِ وسعتِ اُمید ملتا ہے

سوالی بن کے جس نے ہاتھ پھیلایا مدینے میں

بہر لمحہ بہر لحظہ بہر جلوہ بہر عنواں

زمیں پر خُلد کا عالم نظر آیا مدینے میں

وہی جلوؤں کی تابانی وہی رنگوں کی ارزانی

کسی کو کب خیالِ بیش و کم آیا مدینے میں

یہاں کے دشت بھی گلزارِ جنت بن گئے آخر

بہاروں نے خزاں کو تاج پہنایا مدینے میں

متاعِ زندگی کی قدر و قیمت پوچھئے اُن سے

لٹا آئے جو اپنی جاں کا سرمایہ مدینے میں

بڑھا دی عرش کی رفعت سے رفعت خاکِ طیبہ کی

رسول پاکﷺ نے آرام فرمایا مدینے میں

وہ اب ہر نعمت کونین بے وقعت سمجھتا ہے

حبیب کبریاﷺ نے جس کو بلوایا مدینے میں

کسی کو یاد بھی آئی نہ عارف گرمئ محشر

سروں پر تھا پَرِ جبریلؑ کا سایہ مدینے میں


عارف اکبرآبادی

No comments:

Post a Comment