Wednesday, 24 January 2024

اپنی تو یونہی ہجر میں جلتے ہوئے گزری

 اپنی تو یونہی ہجر میں جلتے ہُوئے گُزری​

جیسے کسی درویش کی چلتے ہوئے گزری​

اک بار جو خُورشید نے کی دن سے بغاوت​

پھر تا بہ ابد اس کی بھی ڈھلتے ہوئے گزری​

ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ ایسا ہی لکھا تھا​

ہاتھوں کو تمام عمر ہی مَلتے ہوئے گزری

​اک لحظہ ہُوا تھا میں تِری یاد سے غافل​

اک عُمر اسی پاداش میں جلتے ہوئے گزری​

بس حضرتِ عاطف کو یہی کچھ تھا میسّر​

سو، نانِ غمِ ہجر پہ پلتے ہوئے گزری​


عاطف خالد بٹ

No comments:

Post a Comment