ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
مٹا دے میری ہستی کو اگر ارمان باقی ہے
یہی فطرت ہے بس دل کی تجھے کیسے بتاؤں میں
بُھلا دوں ساری دنیاں کو تجھے کیسے بُھلاؤں میں
ابھی الزام لگنا ہے، ابھی زِندان باقی ہے
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
جُدا ہو کر بھی زندہ ہوں عجب یہ معجزہ دیکھا
نظر آیا مجھے تُو ہی کہ جب جب آئینہ دیکھا
تِری مجھ سے مِری تجھ سے ابھی پہچان باقی ہے
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
نظارہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھے گا زمانہ بھی
زباں پہ آئے گا اک دن تِرا میرا فسانہ بھی
ہوائیں ہیں ابھی مدھم، ابھی طوفان باقی
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
اسے میں شاعرہ لکھوں یا اس پر شاعری لکھوں
اسے میں موت لکھوں یا کے اپنی زندگی لکھوں
نہ جانے کون سی حسرت دلِ نادان باقی ہے
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
زباں خاموش ہے میری، قلم گُمنام رکھی ہیں
تِری خاطر لکھی غزلیں سبھی بینام رکھی ہیں
تمہارا نام لکھا ہے، ابھی عنوان باقی ہے
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
بہت دلکش نظارہ ہے مگر پھر بھی کمی سی ہے
کہو چُپ چاپ کیوں ہو تم کیوں آنکھوں میں نمی سی ہے
ابھی عابد مِرا دلبر مِرا مہمان باقی ہے
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
عابد نواب سہارنپوری
No comments:
Post a Comment