Tuesday 23 January 2024

پل تری یاد کے بہانے کے

 پل تِری یاد کے بہانے کے

ہم نہ بھولے، نہ تھے بھلانے کے

توڑ ڈالوں نہ کیوں سبھی بندھن

ضبط کے، صبر کے، زمانے کے

اب جو بولوں تو کھول کر کہہ دوں

بھید سارے جو تھے چُھپانے کے

کیسے اس کے بغیر کہہ ڈالوں

تھے جو قصے اسے سنانے کے

زندگی اب نہ مجھ کو بھائیں ذرا

تیرے انداز دل لُبھانے کے

ہم نے سینچے ہیں پُھول جیسے شکیل

زخم وہ غم کے تازیانے کے


شکیل خورشید

No comments:

Post a Comment