Wednesday, 31 January 2024

اصلاح ملک کا نعرہ لگاتا رہا کوئی

 اپنے ملک میں


اصلاح ملک کا نعرہ لگاتا رہا کوئی

مذہب کی ڈفلی لے کے بجاتا رہا کوئی

بن کر مداری سانپ نچاتا رہا کوئی

اور مال لُوٹ لٗوٹ کے کھاتا رہا کوئی

اپنے وطن میں سب کا یہی حال ہو گیا

ایمان داریوں کا یہاں کال ہو گیا


سادھو ہوں یا کہ سادھوی کرتے ہیں یہ کرم

سازش رچیں گے کیسے کہاں رکھا جائے بم

رہبر و مولوی بھی نہیں اس سے کوئی کم

پیسے کی چاہ توڑتی ہے ان کے سب بھرم

دولت کی ان کے پاس بہت ریل پیل ہے

دین و سیاست ان کے لیے صرف کھیل ہے


بھگوا، ہرا، سفید کے چکر میں پھانس کر

لوگوں کا ڈال دیتے ہیں یہ اوکھلی میں سر

رہتے ہیں سیکورٹی میں خُود شام و سحر

مُرغا اُڑائیں خُود، ہمیں دیتے ہیں صرف پر

کرتوت ان کے دیکھ کے پھٹ جاتی ہے زمیں

لیکن کمال ہے یہ سزا پاتے ہی نہیں


مسلم ہیں یہ نہ ہندو نہ سِکھ ہیں یہ سر پھرے

ان کو غرض نہیں ہے جیے کوئی یا مرے

غدارِ ملک جتنے بھی ہیں ملک میں بھرے

آتے ہیں ان کے واسطے ہیمنت کرکرے

کالسکر و حیمد یا اشفاق و کامٹے

کتنے جوان ملک کی خدمت میں مر مِٹے


قانون جس جگہ ذرا بے بس دِکھائی دے

جب جُھوٹ کی سوا نہ کہیں کچھ سُنائی دے

ایسے میں کس کو کون کہاں تک دُہائی دے

اک راستہ ظہیر یہی پھر دِکھائی دے

طاقت عوام ایسے بتانے لگے ہیں اب

دہشتگردوں پہ جوتے چلانے لگے ہیں اب


ظہیر قدسی

ظہیرالدین محمد عمر قدسی

No comments:

Post a Comment