کیا جانے کتنے ہی رنگوں میں ڈُوبی ہے
رنگ بدلتی دُنیا میں جو یک رنگی ہے
منظر منظر ڈھلتا جاتا ہے پِیلا پن
چہرہ چہرہ سبز اُداسی پھیل رہی ہے
پیلی سانسیں بُھوری آنکھیں سُرخ نگاہیں
عنابی احساس طبیعت تاریخی ہے
دیکھ گُلابی سنّاٹوں میں رہنے والے
آوازوں کی خاموشی کتنی کالی ہے
آج سفیدی بھی کالا ملبوس پہن کر
اپنی چمکتی رنگت کا ماتم کرتی ہے
ساری خبروں میں جیسے اک زہر بھرا ہے
آج اخباروں کی ہر سُرخی نیلی ہے
کیف کہاں تک تم خُود کو بے داغ رکھو گے
اب تو ساری دُنیا کے منہ پر سیاہی ہے
کیف احمد صدیقی
No comments:
Post a Comment