یہی بہت ہے کہ اُس کے خیال میں ہوں میں
خیال میں ہوں نگارِ جمال میں ہوں میں
کسی کے ڈھنگ میں ڈھل کر سڑک پہ چلتا ہوں
کسی کے رنگ میں شکلِ وصال میں ہوں میں
پرِ جمال کی طاقت ہے میری ہمراہی
بلندیوں کی طرف ہوں، کمال میں ہوں میں
یہ خوشبوؤں کا جھماکا ہے وہم سے باہر
حصارِ نافۂ عطرِ غزال میں ہوں میں
یقین یہ ہے عروجِ سمائے دیگر ہے
گمان یہ تھا کہ جائے زوال میں ہوں میں
نظر ہو فکر ہو مسکان ہو کہ طیش و خوشی
مِرے ندیم تمہارے خصال میں ہوں میں
پلٹ کے آئے گا وہ اپنی تازگی کے سمیت
اسد جہانِ رجوع و مآل میں ہوں میں
اسد الله قادری
No comments:
Post a Comment