Thursday 25 January 2024

وحشت دل نہ جب مٹائی گئی

 وحشتِ دل نہ جب مِٹائی گئی

عصر پڑھ کے صدا لگائی گئی

ذِکر چھیڑا اُداس لوگوں کا

اور میری غزل سُنائی گئی

راستے میں بہت اندھیرا تھا

بات سے روشنی بنائی گئی

یوں بھی جُرمِ وفا کو مانا گیا

وقتِ آخر پلک اُٹھائی گئی

اس جہاں سے تھی جو بہت پہلے

وہ اُداسی نہیں دِکھائی گئی

ایک تو تیرا اِنتظار کِیا

اور پھر عُمر بھی چُھپائی گئی

ہائے ،وہ ایک رات جو شاہد

عرش سے فرش تک سجائی گئی


عرفان شاہد

No comments:

Post a Comment