Tuesday, 1 July 2025

درد سے اگر رشتہ دوست کا نکل آئے

 درد سے اگر رشتہ دوست کا نکل آئے

غم میں مسکرانے کا راستہ نکل آئے

سچ سے اک تعلق ہے ہر حسین کاوش کا

ہر کہانی ممکن ہے واقعہ نکل آئے

کوٹھیوں میں نکلے گا آدمی بھی مشکل سے

جھونپڑوں میں ممکن ہے دیوتا نکل آئے

وقت نے بدل ڈالا زندگی کی قدروں کو

دوست کیا تھے کل اپنے آج کیا نکل آئے

سوچنے اگر بیٹھیں ان کی زلف برہم سے

دار تک محبت کا سلسلہ نکل آئے

لے چلا ہے دل لیکن بات جب ہے بن ٹوٹے

پتھروں کی بستی سے آئینہ نکل آئے

عمر بھر ملے جن سے مسکرا کے ہم نظمی

وہ بھی دل کے زخموں سے آشنا نکل آئے


نظمی سکندرآٓبادی

No comments:

Post a Comment