Tuesday, 1 July 2025

عجب آرام ہے جس نے تھکن سے چور کر ڈالا

 عجب آرام ہے جس نے تھکن سے چور کر ڈالا

سفر کی تشنگی سے جسم کو معمور کر ڈالا

اسی نے لا مکاں کی تیرگی کو ارتقا بخشا

مکاں کو ایک دن جس نے اچانک نور کر ڈالا

تخیل کو نظر آنے لگے تھے چاک لفظوں کے

شکستہ پیرہن سالم بدن سے دور کر ڈالا

کنارے ہاتھ ملتے رہ گئے دریا کے پانی میں

بہت گھل مل گئے جس سے اسی نے دور کر ڈالا

زمانہ منحرف ہونے لگا کہنہ روایت سے

ہو الحق بھی کہا جس نے اسے منصور کر ڈالا

گزرتے وقت نے ٹانکے لگائے میرے زخموں کو

رکا کچھ سوچ کر اور پھر انہیں ناسور کر ڈالا

اتر کر سطح سے گہرائی میں رشتے نئے ڈھونڈوں

سمندر کی رفاقت نے مجھے مجبور کر ڈالا


محمد افتخارالحق سماج

No comments:

Post a Comment