عجب آرام ہے جس نے تھکن سے چور کر ڈالا
سفر کی تشنگی سے جسم کو معمور کر ڈالا
اسی نے لا مکاں کی تیرگی کو ارتقا بخشا
مکاں کو ایک دن جس نے اچانک نور کر ڈالا
تخیل کو نظر آنے لگے تھے چاک لفظوں کے
شکستہ پیرہن سالم بدن سے دور کر ڈالا
کنارے ہاتھ ملتے رہ گئے دریا کے پانی میں
بہت گھل مل گئے جس سے اسی نے دور کر ڈالا
زمانہ منحرف ہونے لگا کہنہ روایت سے
ہو الحق بھی کہا جس نے اسے منصور کر ڈالا
گزرتے وقت نے ٹانکے لگائے میرے زخموں کو
رکا کچھ سوچ کر اور پھر انہیں ناسور کر ڈالا
اتر کر سطح سے گہرائی میں رشتے نئے ڈھونڈوں
سمندر کی رفاقت نے مجھے مجبور کر ڈالا
محمد افتخارالحق سماج
No comments:
Post a Comment