Tuesday, 1 July 2025

چشم انا سے بادۂ غم پی رہا تھا وہ

 چشم انا سے بادۂ غم پی رہا تھا وہ

کل رات اپنے آپ میں ڈوبا ہوا تھا وہ

مجھ کو مرے وجود سے باہر جو لے گیا

میرے ہی روپ میں کوئی بہروپیا تھا وہ

شور اس کو زندگی کا سنائی نہیں دیا

شاید کسی کی چاہ میں ڈوبا ہوا تھا وہ

محشر میں مجھ کو پوچھ رہا تھا ہر ایک سے

معلوم بعد میں ہوا میرا خدا تھا وہ

مجھ سا ہی شخص کوئی مرے آئینے میں تھا

مجھ کو ہی دیکھ دیکھ کے گھبرا رہا تھا وہ

افروز آیا سامنے یوں اس کے دل کا چور

تصویر میری دیکھ کے شرما رہا تھا وہ


معین افروز

No comments:

Post a Comment