اب یہی سوچ رہا ہوں کہ میں کیا لے جاؤں
دل سے اچھا ہے تری یاد چرا لے جاؤں
اپنی مرضی سے اگر آنا ہے آجا ورنہ
اتنا کم ظرف نہیں تجھ کو اٹھا لے جاؤں
میں نے جانا ہے افق پار کسی سے ملنے
تم نے جانا ہے اگر ساتھ تو آ، لے جاؤں
میرے اپنے ہیں یہاں میری ہوا کے جھونکے
میں جسے چاہوں اسے ساتھ اڑا لے جاؤں
تم نہیں جانتے خلوت میں روانی میری
میں وہ دریا کہ سمندر بھی بہا لے جاؤں
کوئی بھی چیز نہیں تیرے علاوہ صائم
کوئی بھی چیز نہیں جس کو چھپا لے جاؤں
عابد حسین صائم
No comments:
Post a Comment