Friday, 4 July 2025

میں وہ دریا کہ سمندر بھی بہا لے جاؤں

 اب یہی سوچ رہا ہوں کہ میں کیا لے جاؤں

دل سے اچھا ہے تری یاد چرا لے جاؤں

اپنی مرضی سے اگر آنا ہے آجا ورنہ

اتنا کم ظرف نہیں تجھ کو اٹھا لے جاؤں

میں نے جانا ہے افق پار کسی سے ملنے

تم نے جانا ہے اگر ساتھ تو آ، لے جاؤں

میرے اپنے ہیں یہاں میری ہوا کے جھونکے

میں جسے چاہوں اسے ساتھ اڑا لے جاؤں

تم نہیں جانتے خلوت میں روانی میری 

میں وہ دریا کہ سمندر بھی بہا لے جاؤں

کوئی بھی چیز نہیں تیرے علاوہ صائم

کوئی بھی چیز نہیں جس کو چھپا لے جاؤں


عابد حسین صائم

No comments:

Post a Comment