سلگتی ریت پہ خیمہ لگا کے دیکھا ہے
ہمیں نے دشت کو مسکن بنا کے دیکھا ہے
ہمارے شعر تمہیں کس طرح سمجھ آئیں
ہمارا حال کہاں تم نے آ کے دیکھا ہے
کچھ اس طرح سے بتائی ہیں ہجر کی راتیں
کے جیسے موسم گرما بتا کے دیکھا ہے
وہی بتائے گا عمر حیات کتنی ہے
وہ جس نے ریت پہ چہرہ بنا کے دیکھا ہے
انہیں تھا شوق مسیحائی ہم بھی عاشق تھے
سو ہم نے اپنا گلا بھی کٹا کے دیکھا ہے
سنا تھا عشق میں ہے صبر لازم و ملزوم
تو انتظار بھی پلکیں بچھا کے دیکھا ہے
ہماری آنکھیں کہیں گی نہ جانے کب ہم سے
کسی نے آج ہمیں مسکرا کے دیکھا ہے
ہمارے سر پہ تھا الزام ہے وفائی کا
سو اپنے آپ کو اپنا بنا کے دیکھا ہے
تعلقات میں آنے لگی کمی ہانی
تعصبات نے کیا سر اٹھا کے دیکھا ہے
ہانی بریلوی
No comments:
Post a Comment