Thursday, 3 July 2025

فریب ذات کے دلکش بتوں کو کس نے یوں توڑا

 فریب ذات کے دلکش بتوں کو کس نے یوں توڑا

ہمیں تھے جس نے ہستی کے حقائق سے نہ منہ موڑا

درِ حسرت یہ کیا تکتا ہے اے دل نو بہ نو جلوے

کسی کی سرفرازی دیکھ کر کرئیے نہ دل توڑا

یہ غم کیا کم ہے اے ہمدم! کہ بستی کے غزالوں کو

ابھی دشتِ تغافل کی تمنا نے نہیں چھوڑا

نئی دیوار اٹھا کر ہم یہ سمجھے دل بدل ڈالے

مگر بنیاد کے پتھر نے وہ رشتہ نہیں توڑا

مقدر سے شکایت کب تلک کرئیے انیس آخر

تمہیں پاسِ تکلف نے کسی قابل نہیں چھوڑا


انیس سلطانہ

No comments:

Post a Comment