فریب ذات کے دلکش بتوں کو کس نے یوں توڑا
ہمیں تھے جس نے ہستی کے حقائق سے نہ منہ موڑا
درِ حسرت یہ کیا تکتا ہے اے دل نو بہ نو جلوے
کسی کی سرفرازی دیکھ کر کرئیے نہ دل توڑا
یہ غم کیا کم ہے اے ہمدم! کہ بستی کے غزالوں کو
ابھی دشتِ تغافل کی تمنا نے نہیں چھوڑا
نئی دیوار اٹھا کر ہم یہ سمجھے دل بدل ڈالے
مگر بنیاد کے پتھر نے وہ رشتہ نہیں توڑا
مقدر سے شکایت کب تلک کرئیے انیس آخر
تمہیں پاسِ تکلف نے کسی قابل نہیں چھوڑا
انیس سلطانہ
No comments:
Post a Comment