Saturday, 5 July 2025

یادوں کا ایک بار گراں چھوڑ گئے ہیں

یادوں کا ایک بار گراں چھوڑ گئے ہیں

جینے کے لیے کچھ تو یہاں چھوڑ گئے ہیں

وہ چھین گئے ہیں مِری نیندیں، مِرے سپنے

حصہ میں مِرے آہ و فگاں چھوڑ گئے ہیں

معیار بنایا تھا جنہیں علم و عمل کا

وہ دل میں مِرے دردِ نہاں چھوڑ گئے ہیں

آنکھوں میں بسے تھے جو کبھی نور کی صورت

آنکھوں کے لیے اشکِ رواں چھوڑ گئے ہیں

لے کر تو چلے تھے وہ مجھے جانبِ منزل

رستے میں مگر نالہ کُناں چھوڑ گئے ہیں

وہ نیک صفت، نیک عمل حضرتِ تاباں

عقبیٰ میں مزے میں ہیں، جہاں چھوڑ گئے ہیں

حیراں ہے رحیم، آخری دیدار دکھا کر

وہ سوز بہ دل، شعلہ بہ جاں چھوڑ گئے ہیں


محمد رؤف رحیم الدین

 والد محترم محمد شمس الدین تاباں کی نذر

No comments:

Post a Comment