Saturday, 5 July 2025

ستاروں کی طرح غم کے حوالے چھوڑ جاؤں گا

 ستاروں کی طرح غم کے حوالے چھوڑ جاؤں گا 

اندھیرے ساتھ رکھوں گا اجالے چھوڑ جاؤں گا

کسی مفلس کو مل جائے مرے حصے کا کھانا بھی 

میں دستر خوان پر اپنے نوالے چھوڑ جاؤں گا

جنہیں پڑھ کر کبھی سوچوں سے حیرانی نہ جائے گی 

ادیبوں کے لیے ایسے مقالے چھوڑ جاؤں گا

میسر نہ ہوا مجھ کو سمندر سے کوئی قطرہ 

سخاوت گر کی چوکھٹ پر پیالے چھوڑ جاؤں گا

اداسی آسمانوں سے برستی ہی رہے جن سے 

خلا میں اس قدر دلدوز نالے چھوڑ جاؤں گا

فنا کی سمت دوڑے گی پتنگوں کی طرح دنیا 

حیات جاوداں کے گرد ہالے چھوڑ جاؤں گا

کہانی اس طرح ترتیب دوں گا دشت و صحرا کی 

تری رنگین دنیا میں رسالے چھوڑ جاؤں گا

دیے جلتے رہیں گے جس میں میری نامرادی کے 

تری غمگین آنکھوں میں شوالے چھوڑ جاؤں گا

ہمارے بعد بھی تم کو سنیں گی دھڑکنے میری 

بہت حساس شعروں میں وہ آلے چھوڑ جاؤں گا

قریب مرگ مجبوری ہے ورنہ ساتھ لے جاتے 

تمہارے غم بہت ہم نے سنبھالے چھوڑ جاؤں گا

اکیلا ہی لڑوں گا میں مخالف فوج سے لیکن

ترے لشکر میں نیزے اور بھالے چھوڑ جاؤں گا

ہماری واپسی باطن نہیں لگتا کہ اب ہو گی

میں اپنے گھر کے دروازوں پہ تالے چھوڑ جاؤں گا


باطن رجانوی

No comments:

Post a Comment