ستاروں کی طرح غم کے حوالے چھوڑ جاؤں گا
اندھیرے ساتھ رکھوں گا اجالے چھوڑ جاؤں گا
کسی مفلس کو مل جائے مرے حصے کا کھانا بھی
میں دستر خوان پر اپنے نوالے چھوڑ جاؤں گا
جنہیں پڑھ کر کبھی سوچوں سے حیرانی نہ جائے گی
ادیبوں کے لیے ایسے مقالے چھوڑ جاؤں گا
میسر نہ ہوا مجھ کو سمندر سے کوئی قطرہ
سخاوت گر کی چوکھٹ پر پیالے چھوڑ جاؤں گا
اداسی آسمانوں سے برستی ہی رہے جن سے
خلا میں اس قدر دلدوز نالے چھوڑ جاؤں گا
فنا کی سمت دوڑے گی پتنگوں کی طرح دنیا
حیات جاوداں کے گرد ہالے چھوڑ جاؤں گا
کہانی اس طرح ترتیب دوں گا دشت و صحرا کی
تری رنگین دنیا میں رسالے چھوڑ جاؤں گا
دیے جلتے رہیں گے جس میں میری نامرادی کے
تری غمگین آنکھوں میں شوالے چھوڑ جاؤں گا
ہمارے بعد بھی تم کو سنیں گی دھڑکنے میری
بہت حساس شعروں میں وہ آلے چھوڑ جاؤں گا
قریب مرگ مجبوری ہے ورنہ ساتھ لے جاتے
تمہارے غم بہت ہم نے سنبھالے چھوڑ جاؤں گا
اکیلا ہی لڑوں گا میں مخالف فوج سے لیکن
ترے لشکر میں نیزے اور بھالے چھوڑ جاؤں گا
ہماری واپسی باطن نہیں لگتا کہ اب ہو گی
میں اپنے گھر کے دروازوں پہ تالے چھوڑ جاؤں گا
باطن رجانوی
No comments:
Post a Comment