Saturday, 31 October 2015
تجھ سے پہلے جو تمنا تھی وہی ہے اب تک
Friday, 30 October 2015
کاش وہ پہلی محبت کے زمانے آتے
چاند سے لوگ مِرا چاند سجانے آتے
رقص کرتی ہوئی پھر بادِ بہاراں آتی
پھول لے کر وہ مجھے خود ہی بلانے آتے
ان کی تحریر میں الفاظ وہی سب ہوتے
یوں بھی ہوتا کہ کبھی خط وہ پرانے آتے
ترے خیال کا چرچا ترے خیال کی بات
شبِ فراق میں پیہم رہی وصال کی بات
تم اپنی چارہ گری کو نہ پھر کرو رُسوا
ہمارے حال پہ چھوڑو ہمارے حال کی بات
کماں سی ابرو کا عالم عجیب ہے دیکھو
فلک کے چاند سے بہتر ہے اس ہلال کی بات
وہ عجیب شخص تھا بھیڑ میں جو نظر میں ایسے اتر گیا
جسے دیکھ کر مِرے ہونٹ پر مِرا اپنا شعر ٹھہر گیا
کئی شعر اس کی نگاہ سے مِرے رخ پہ آ کے غزل بنے
وہ نِرالا طرزِ پیام تھا جو سخن کی حد سے گزر گیا
وہ ہر ایک لفظ میں چاند تھا، وہ ہر ایک حرف میں نور تھا
وہ چمکتے مصرعوں کا عکس تھا جو غزل میں خود ہی سنور گیا
مجھے رنگ دے نہ سرور دے مرے دل میں خود کو اتار دے
مِرے لفظ سارے مہک اٹھیں، مجھے ایسی کوئی بہار دے
مجھے دھوپ میں تُو قریب کر، مجھے سایہ اپنا نصیب کر
مِری نکہتوں کو عروج دے مجھے پھول جیسا وقار دے
مِری بکھری حالتِ زار ہے، نہ تو چین ہے نہ قرار ہے
مجھے لمس اپنا نواز کے، مِرے جسم و جاں کو نِکھار دے
Thursday, 29 October 2015
میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں میرا دل بھی گا رہا ہے
میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں میرا دل بھی گا رہا ہے
یہ فضا حسیں ہے اتنی کہ نشہ سا چھا رہا ہے
میرے ہمنشیں مبارک تجھے پیار کی یہ منزل
تجھے مل گئی وہ دولت جو ہے زندگی کا حاصل
وہ گماں تھا اک حقیقت یہ یقین آ رہا ہے
میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں
خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں
خداوندا! یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں
تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں
نجانے یہ شبِ غم صبح تک کیا رنگ لائے گی
نفس کے ساتھ اک تلوار سی چلتی ہے سینے میں
کسے معلوم تھا یارب کہ ہو گی دشمنِ جاں بھی
وہ حسرتِ خونِ دل پی پی کے جو پلتی ہے سینے میں
یہ آرزو جواں جواں یہ چاندنی دھواں دھواں
پکارتے پھریں بتاؤ ہم تمہیں کہاں کہاں
یہ آرزو جواں جواں
چاند کا دِیا لیے، رات ڈھونڈنے چلی
چھپو گے تم کہاں کہاں
تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے
تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے
اک چراغ کیا جلا، سو چراغ جل گئے
تیری یاد آ گئی
شرم سے رکے رکے مِل گئے تھے تم جہاں
ایسی بجلیاں گریں سارے خواب جل گئے
غم خوشی میں ڈھل گئے
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
بھری دنیا کو ویراں پاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
بہت آسان سہی راہِ وفا کی منزلیں، لیکن
اکیلے تم کہاں تک جاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
ہمیں اپنا نہیں جانِ تمنا! غم تمہارا ہے
کہ تم کس پر ستم فرماؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
کبھی اپنے عشق پہ تبصرے کبھی تذکرے رخ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلسمِ حسنِ خیال ہے، کہ فریب تیرے بہار کے
سرِ بام جیسے ابھی ابھی چھپ کوئی گیا ہے پکار کے
سیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دید کی، یہی دن ہیں آمدِ یار کے
نہ کسی کو فکر منزل نہ کہیں سراغ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
یہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں، کبھی اوڑھ کر لبادہ
میرے روز و شب یہی ہیں کہ مجھی تک آ رہی ہیں
تیرے حسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ
دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہو گا، رقصِ بسمل کے سوا
متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا، کیا ناخدا
یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا
میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا
اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا
ردائے خاک نہیں آسمان ہے یہ بھی
کبھی کبھار تو ہوتا گمان ہے یہ بھی
اتر رہے ہیں تواتر سے خواب آنکھوں میں
سمجھ رہا ہوں کوئی امتحان ہے یہ بھی
میں اپنی ذات کے اندر بھی جھانک لیتا ہوں
کہ حیرتوں سے بھرا اک جہان ہے یہ بھی
ہزار رنج اٹھائے ہوئے سے لگتے ہیں
کہ یہ چراغ بجھائے ہوئے سے لگتے ہیں
سوال پوچھ رہے ہیں، کہ زندگی کیا ہے
جواب ڈھونڈ کے لائے ہوئے سے لگتے ہیں
پناہ مانگ رہے ہیں ہماری آنکھوں میں
ہمیں یہ خواب ستائے ہوئے سے لگتے ہیں
دشت کی پیاس کسی طور بجھائی جاتی
کوئی تصویر ہی پانی کی دکھائی جاتی
ایک دریا چلا آیا ہے مِرے ساتھ، اسے
روکنےکے لیے دیوار اٹھائی جاتی
ہم نئے نقش بنانے کا ہنر جانتے ہیں
ایسا ہوتا تو نئی شکل بنائی جاتی
بات کرنی ہے کیا کسی سے مجھے
خوف آنے لگا ابھی سے مجھے
جس گلی کا طواف کرتا ہوں
کوئی نسبت ہے اس گلی سے مجھے
کیوں مِرا مسئلہ بنی ہوئی ہے
پوچھنا تھا یہ زندگی سے مجھے
ترے فراق میں دل سے نکال کر دنیا
چلا ہوں سِکے کی مانند اچھال کر دنیا
بڑھا لیا تِرے دامان کی طرف اک ہاتھ
اور ایک ہاتھ میں رکھی سنبھال کر دنیا
میں اپنے حجرے میں نان و نمک پہ قانع تھا
وہ چل دیا مِری جھولی میں ڈال کر دنیا
پرند بھرتے ہیں کیسے اڑان دیکھ تو لوں
میں بند کھڑکی سے یہ آسمان دیکھ تو لوں
مخل ہوا ہے یہ کس کا وجودِ نا موجود
ہے کون تیرے مِرے درمیاں دیکھ تو لوں
ہے کون میرا خریدار، کون سوداگر؟
میں بِک رہا ہوں جہاں وہ دکان دیکھ تو لوں
دھرتی کے باسیوں میں نہ آکاشیوں میں تھا
دھرتی کے باسیوں میں نہ آکاشیوں میں تھا
تسبیح کوشیوں میں نہ شب باشیوں میں تھا
میں اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے ہلکان ہو گیا
سنتا ہوں چشمِ تر کی گہر پاشیوں میں تھا
کر کے جُدا کتاب کو متنِ کتب سے
یاروں کا سارا زورِ بیاں حاشیوں میں تھا
مارنے والا ہے کوئی کہ ہے مرنے والا
اسی مٹی میں ہے آخر کو اترنے والا
جانے کس چیز کو کہتے ہیں مکافات عمل
اور کرتا ہے کوئی، اور ہے بھرنے والا
ساحلِ مرگ ہے منزل سبھی تیراکوں کی
ڈوبنے والا بھی ہے، پار اترنے والا
یوں تو نہیں کہ پہلے سہارے بنائے تھے
دریا بنا کے اس نے کنارے بنائے تھے
کوزے بنانے والے کو عجلت عجیب تھی
پورے نہیں بنائے تھے سارے بنائے تھے
اب عشرت و نشاط کا سامان ہوں تو ہوں
ہم نے تو دِیپ خوف کے مارے بنائے تھے
دشت جلتے ہوئے جنگل سے کہیں اچھا ہے
ہاں مِرا آج مِرے کل سے کہیں اچھا ہے
اِکتفا کیجے کنویں پر کہ یہ کھارا ہی سہی
بے یقینی بھرے بادل سے کہیں اچھا ہے
کنجِ ہجراں میں ہلاہل ہی سہی سناٹا
تِری آواز کی دلدل سے کہیں اچھا ہے
مسند دل پہ ترا عشق بٹھایا ہے میاں
شہرِ احساس کو یوں ہم نے سجایا ہے میاں
دل سمندر میں تِری یاد بہا کر ہم نے
چشمِ حیراں کو عزادار بنایا ہے میاں
مجھ کو دریا کی روانی میں روانہ کر کے
میرے قاتل نے مِرا سوگ منایا ہے میاں
کب مری حلقہ وحشت سے رہائی ہوئی ہے
دل نے اِک اور بھی زنجیر بنائی ہوئی ہے
اور کیا ہے مِرے دامن مِیں محبت کے سوا
یہی دولت مِری محنت سے کمائی ہوئی ہے
یہ میاں عشق ہے بچوں کا کوئی کھیل نہیں
تم نے اس دشت میں دیوار اٹھائی ہوئی ہے
تیز ہوا میں دیپ جلایا جا سکتا ہے
لفظوں تک ادراک کا سایا جا سکتا ہے
در کو بھی دیوار بنایا جا سکتا ہے
غاصب کا دربار گرایا جا سکتا ہے
ہم ٹھہرے گمنام گھروں کے باسی، جگ میں
ہم پر ہر الزام لگایا جا سکتا ہے
عجیب طور درختوں نے شب گزاری ہے
کہ شاخ شاخ قیامت کی سوگواری ہے
یہ کیسا عشق ہے جو آنکھ تک نہیں آتا
یہ کیسی آگ ہے جو روشنی سے عاری ہے
ہمارے دل کا ابد تو ہمیں نہیں معلوم
ہمارے دل کو ازل سے لگن تمہاری ہے
Wednesday, 28 October 2015
جدائیوں کے زمانے کب تک نجانے کب تک
تم نے گر یونہی مجھے چھوڑ کے جانا تھا ناں
کوئی اچھا سا بہانہ تو بنانا تھا ناں
چاندنی رات تھی اور تیز ہوا چلتی تھی
گھاس کی سیج تھی تکیہ میرا شانہ تھا ناں
یہ تیرا غم تو مجھے کھا گیا دیمک کی طرح
ورنہ معلوم ہے میں کتنا توانا تھا ناں
کوئی دوست ہے نہ رقیب ہے
کوئی دوست ہے نہ رقیب ہے
کبھی غنچہ کبھی شعلہ کبھی شبنم کی طرح
کچھ حرف و سخن پہلے تو اخبار میں آیا
سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
تیرے دروازے پہ یہ چلمن نہیں دیکھی جاتی
جانِ جاں ہم سے یہ الجھن نہیں دیکھی جاتی
بے حجابانہ مِلو ہم سے، یہ پردہ کیسا
بند ڈولی میں سہاگن نہیں دیکھی جاتی
جام میں ہو تو نظر آئے گلابی جوڑا
ہم سے بوتل میں یہ دلہن نہیں دیکھی جاتی
یوں انتقام تجھ سے فصلِ بہار لیں گے
دکھ محبت میں وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
اس قدر صدمے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
یوں تو وہ ایک اچٹتی سی نظر تھی، لیکن
زخم اس طرح کے آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
اب تو خاموش ہیں لیکن انہیں آنکھوں نے کبھی
ایسے طوفان ا ٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دل عجب انداز سے لہرا گیا
دل عجب انداز سے لہرا گیا
اس سے پوچھے کوئی چاہت کے مزے
جس نے چاہا، اور جو چاہا گیا
ایک لمحہ بن کے عیشِ جاوداں
میری ساری زندگی پر چھا گیا
وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں
ورنہ، میری نگہِ شوق بھی مجبور نہیں
خاطرِ اہلِ نظر، حسن کو منظور نہیں
اس میں کچھ تیری خطا دیدۂ مہجور نہیں
لاکھ چھپتے ہو مگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہو، نزدیک نہیں، دور نہیں
دامن دل پہ نہیں بارش الہام ابھی
عشق ناپختہ ابھی، جذبِ دروں خام ابھی
خود ہی جھجکتا ہوں کہ دعوائے جنوں کیا کیجئے
کچھ گوارا بھی ہے یہ قید در و بام ابھی
یہ جوانی تو ابھی مائل پیکار نہیں
یہ جوانی تو ہے رسوائے مے و جام ابھی
Tuesday, 27 October 2015
ہنگامہ ہائے گرمی بازار لے چلے
تہمت سی شے اٹھا کے خریدار لے چلے
یہ بھی خیالِ خاطرِ احباب ہے کہ ہم
دل میں چھپا کے دشنۂ اغیار لے چلے
کیا بستیاں اجاڑ کے وارتگانِ شوق
صحرا میں حسرتِ در و دیوار لے چلے
رندان تہی جام ہیں کچھ اور طرح کے
یارانِ مئے آشام ہیں کچھ اور طرح کے
کیا جانیے کافر ہیں کہ مومن ہیں مگر ہم
سرگشتۂ اوہام ہیں کچھ اور طرح کے
بکتے ہیں نہ جھکتے ہیں نہ رکھتے ہیں عداوت
ہم بندۂ بے دام ہیں کچھ اور طرح کے
تھی دشت کو جو آس بہت بے اساس تھی
تھی دشت کو جو آس بہت بے اساس تھی
بادل تمام آگ تھے، دریا کو پیاس تھی
ہر شخص مطمئن تھا، کسی کو پتہ نہ تھا
ڈھانپے ہوئے بدن کی صدا بے لباس تھی
مجھ سے یہ کہہ سکا نہ گئی رات کا سکوت
خوشبو تمام ہو کے ہَوا کیوں اداس تھی
ہوں ایک وقت سے ناپختہ کار ایسا ہی
ہوں ایک وقت سے ناپختہ کار ایسا ہی
رہا ہے مجھ کو سرابوں سے پیار ایسا ہی
میں کیا سمجھ کے کہوں گا بدل گیا موسم
میں فصلِ فصل تھا بے اختیار ایسا ہی
اسیرِ ذات بنوں گا یہ میں نے کیا سوچا
تھا اس کی بات کا کچھ اعتبار ایسا ہی
کوئی باتوں باتوں میں باوفا جو کہہ گیا
میرا زخم خوردہ دل دھک سے ہو کے رہ گیا
ضبط اس لیے کیا تھا کہ ’راز‘ ہو نہ فاش
اب میں اس کو کیا کروں، دل میں درد رہ گیا
میری بے زبانیاں کام آ گئیں کہ میں
غم کی ساری داستان اک نظر میں کہہ گیا
غم زدہ ہیں مبتلائے درد ہیں ناشاد ہیں
ہم کسی افسانۂ غم ناک کے افراد ہیں
گردشِ افلاک کے ہاتھوں بہت برباد ہیں
ہم لبِ ایام پر اک دکھ بھری فریاد ہیں
زندگی میں سینکڑوں غم ہیں ہمارے واسطے
سینۂ پُر خوں ہے دنیا، ہم دلِ ناشاد ہیں
آرزو کو روح میں غم بن کے رہنا آ گیا
سہتے سہتے ہم کو آخر رنج سہنا آ گیا
دل کا خوں آنکھوں میں کھچ آیا، چلو اچھا ہوا
میری آنکھوں کو مِرا احوال کہنا آ گیا
سہل ہو جائے مشکل ضبطِ سوزِ و ساز کی
خونِ دل کو آنکھ سے روز بہنا آ گیا
ادھر اس فتنے پہ چھایا شباب آہستہ آہستہ
نظر ملا کر جھکا دے حجاب رہنے دے
جسم دیوار ہے دیوار میں در کرنا ہے
ایک ہی قطرہ تو ہے اشکِ ندامت کا بہت
کون سے دشت و بیابان کو تر کرنا ہے
خاک ہو جانے پہ اے خاک بسر کیوں ہو بضد
کیا تمہیں دوشِ ہوا پر بھی سفر کرنا ہے
غضب کی کاٹ تھی اب کے ہوا کے طعنوں میں
شگاف پڑ گئے ہیں بے زباں چٹانوں میں
یہ اور بات کہ پتھر کے ہونٹ ہیں ورنہ
ہم ایک آگ لیے پھرتے ہیں دہانوں میں
سیاہ شہر کی قسمت میں میرا فیض کہاں
چراغِ نذر ہوں، جلتا ہوں آستانوں میں
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے اب تو
چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا
شہر نے اس کے لیے دار سجا رکھی ہے
اک خوف مجھے صبح کے ہنگام سے آیا
رسن کا ذکر چلا دار کا سوال ہوا
ستم کے باب میں ہر معرکہ کمال ہوا
تمام اہلِ قلم نے قلم کشائی کی
لکھا جو میں نے وہی حرف زوال ہوا
مزاجِ گردشِ دوراں بدل سکا نہ کبھی
نہ جانے کتنا لہو صَرفِ ماہ سال ہوا
رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
اور موسم کے تغیر سے بھی ڈر لگتا ہے
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
بادِ خُوشرنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
اجنبیت کا وہ عالم ہے کہ ہر آن یہاں
اپنا گھر بھی ہمیں اغیار کا گھر لگتا ہے
کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
زندگی تلخ سہی، دل سے لگائے رکھنا
لفظ تو لفظ ہیں کاغذ سے بھی خوشبو پھُوٹے
صفحۂ وقت پہ وہ "پھول" کھلائے رکھنا
چاند کیا چیز ہے سورج بھی ابھر آئے گا
ظلمتِ شب میں لہو دل کا جلائے رکھنا
ہوس کے نام پہ ظالم سماج مانگے ہے
مِرے بدن سے لہو کا خراج مانگے ہے
مِری زبان کو تم کاٹ کیوں نہیں دیتے
تمہارے عہد میں تم سے اناج مانگے ہے
مکان قرق، زمیں ضبط، فصل پر ڈگری
یہ قرض خواہ ابھی مجھ سے بیاج مانگے ہے
شاخ کیا ٹوٹی آشیانے کی
نبض ہی رک گئی زمانے کی
اپنے ہاتھوں اگر جلانا تھا
کیا ضرورت تھی گھر بنانے کی
کُوچۂ مومناں میں بندش ہے
کلمۂ حق زباں پہ لانے کی
تشنگی لب پہ ہم عکس آب لکھیں گے
جن کا گھر نہیں کوئی وہ گھر کے خواب لکھیں گے
تم کو کیا خبر اس کی زندگی پہ کیا بیتی
زندگی کے زخموں پر ہم کتاب لکھیں گے
حرزِ جاں سمجھتے ہیں ہم وطن کی مٹی کو
اپنے گھر کے خاروں کو ہم گلاب لکھیں گے
سمندر کا تماشا کر رہا ہوں
میں ساحل ہو کے پیاسا مر رہا ہوں
اگرچہ دل میں صحرا کی تپش ہے
مگر میں ڈوبنے سے ڈر رہا ہوں
میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر
شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں
مل بھی جاتا جو کہیں آب بقا کیا کرتے
زندگی خود بھی تھی جینے کی سزا، کیا کرتے
سرحدیں وہ نہ سہی، اپنی حدوں سے باہر
جو بھی ممکن تھا کِیا، اس کے سوا کیا کرتے
ہم سرابوں میں سدا پھول کھلاتے گزرے
یہ بھی تھا آبلہ پائی کا صِلا کیا کرتے
ابھی تو آنکھ میں نادیدہ خواب باقی ہیں
جو وقت لکھ نہیں پایا، وہ باب باقی ہیں
سزا جو اگلے صحیفوں میں تھی تمام ہوئی
مگر صحیفۂ دل💔 کے عذاب باقی ہیں
کرو گے جمع بھلا کیسے دل کے شیشوں کو
ابھی تو دشتِ فلک میں شہاب باقی ہیں
Monday, 26 October 2015
شاہ مدینہ یثرب کے والی سارے نبی
سارے نبی تیرے دَر کے سوالی
جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
آباد عالم تیرے کرم سے
باقی ہر اک شے نقش خیالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہِ مدینہ، یثرب کے والی
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہُو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہُو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہُو
جس کی ہر بُوند میں اِک صبح نئی
Sunday, 25 October 2015
ہم ترے شہر میں پھرتے ہیں مگر ایسے ہی
جب زمانے میں فقط افسردگی رہ جائے گی
اک طرف تیرا فریب آگہی اے زندگی
خیال و خواب کی دنیا سے ہم گزر بھی گئے
اب اور کوئی نہیں اپنا سہارا باقی
دل کی سنے ہوئے بھی زمانے گزر گئے
ایک ہی مسئلہ تا عمر مرا حل نہ ہوا
حال خوش تذکرہ نگاروں کا
ٹھہروں نہ گلی میں تری وحشت نے کہا تھا
تم سے بھی اب تو جا چکا ہوں میں
وہ جو کیا کچھ نہ کرنے والے تھے
مجھ سا کوئی نہیں سر پھرا آدمی
میں کئی دشمنوں میں گھِرا آدمی
روشنی میں نہائیں فرشتے تِرے
خاک اور خوں میں (غلطاں) آدمی
اس زمانے کی الجھی ہوئی ڈور کا
اِک سِرا ہے خدا، اِک سِرا آدمی
رستہ کسی واقف سے بدلنا نہیں آیا
دنیا کی روِش پر مجھے چلنا نہیں آیا
سر پِیٹ کے روتے ہیں غمِ ہجر میں عُشاق
میں ہوں کہ مجھے ہاتھ بھی مَلنا نہیں آیا
بیدار ہوئے نیند سے ہر صبح سلامت
کیوں پھر بھی سمجھ موت کا ٹلنا نہیں آیا
پورا نہ مجھ سے ہو کوئی وعدہ جیوں نہیں
چل تو پڑوں مگر سرِ جادہ، جیوں نہیں
کچھ کارِ خیر سوچ تو رکھا ہے کیا پتا
رہ جائے دل کا دل میں ارادہ، جیوں نہیں
ممکن ہے یہ بھی اور یوں ہی چند سال تک
اوڑھے رکھوں بدن کا لبادہ، جیوں نہیں
کوئی ہوتا تو ہونے کی دیتا خبر گھر میں کوئی نہیں
دستکیں میں دئیے جا رہا ہوں مگر گھر میں کوئی نہیں
نِصف شب کا عمل، قفل بیرون در، دورِ شورِ سگاں
کر کے آیا ہوں طے کتنا لمبا سفر گھر میں کوئی نہیں
جیسے یکدم کہیں سے بلا آئے گی مجھ کو کھا جائے گی
ایک بچے کی مانند لگتا ہے ڈر، گھر میں کوئی نہیں
Saturday, 24 October 2015
دل ہی دل میں سلگ کے بجھے ہم اور سہے غم دور ہی دور
اے دل نشیں تلاش تری کو بہ کو نہ تھی
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں
Friday, 23 October 2015
ہم راز گرفتاری دل جان گئے ہیں
پھر بھی تِری آنکھوں کا کہا مان گئے ہیں
تُو شعلۂ جاں نکہتِ غم صوتِ طلب ہے
ہم جانِ تمنا! تجھے پہچان گئے ہیں
کیا کیا نہ تِرے شوق میں ٹُوٹے ہیں یہاں کفر
کیا کیا نہ تِری راہ میں ایمان گئے ہیں
جرم اظہار تمنا آنکھ کے سر آ گیا
چور جو دل میں چھُپا تھا، آج باہر آ گیا
میرے لفظوں میں حرارت میرے لہجے میں مٹھاس
جو کچھ ان آنکھوں میں تھا، میرے لبوں پر آ گیا
جن کی تعبیروں میں تھی اِک عمر کی وارفتگی
پھر نگاہوں میں انہیں خوابوں کا منظر آ گیا
بقدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے
سفر میں راہ و منزل کا تعین بھی یہیں تک ہے
نہ ہو اِنکار تو اثبات کا پہلو ہی کیوں نکلے
مِرے اِصرار میں طاقت فقط تیری’نہیں‘ تک ہے
اُدھر وہ بات خوشبو کی طرح اُڑتی تھی گلیوں میں
اِدھر میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ہمنشیں تک ہے
دل سا آباد مکاں ہم سے نہ ڈھایا جائے
ہائے وہ نام جو ہم سے نہ بھُلایا جائے
دُھوپ کے رُخ پہ کوئی تان دو کالی چادر
سایۂ گُل میں کوئی ناز اُٹھایا جائے
ہم سے مِل کے کوئی کہتا تھا سرِ کوچۂ دل
درد کی دولتِ نایاب کو پایا جائے
بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو
تعلق کی گراں باری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو
بھٹک جاتی ہیں تم سے دُور چہروں کے تعاقب میں
جو تم چاہو، مِری آنکھوں پہ اپنی اُنگلیاں رکھ دو
برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈُوب تو جائے
ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو
تھا حرف شوق صید ہوا کون لے گیا
میں جس کو سن سکوں وہ صدا کون لے گیا
اک میں ہی جامہ پوش تھا عُریانیوں کے بیچ
مجھ سے مِری عبا و قبا کون لے گیا
احساس بِکھرا بِکھرا سا، ہارا ہُوا بدن
چڑھتی حرارتوں کا نشہ کون لے گیا
کیسے کیسے دل بیتاب کے ارماں ترسے
تم وہ بادل تھے جو دھرتی پہ نہ کھُل کر برسے
کوچہ کوچہ پھِرے ہم لے کے بہت جنسِ وفا
کوئی کھِڑکی نہ کھُلی، کوئی نہ جھانکا در سے
کون آئے گا تعاقب میں ہمارے دیکھیں
سُوئے صحرا چلے ہم رُوٹھ کے اپنے گھر سے
پھول کا ذکر ہے تمہید گلستاں مدد دے
رنگِ رخسار ہے تصویرِ بہاراں مدد دے
پھر کوئی نکہتِ آوارہ مجھے ڈھونڈ نہ لے
ریگِ صحرا و کفِ دستِ بیاباں مد دے
دن کا سورج بھی اجالوں کے سفر سے ہارا
شب کا سناٹا ہے اے نعرۂ مستاں مد دے
نیا جہنم؛ اجنبی جان کے اک شخص نے یوں مجھ سے کہا
وہ مکاں، نِیم کا وہ پیڑ کھڑا ہے جس میں”
کھڑکیاں جس کی کئی سال سے لب بستہ ہیں
جس کے دروازے کی زنجیر کو حسرت ہی رہی
کوئی آئے تو وہ ہاتھوں میں مچل کے رہ جائے
شور، بے ربطئ آہنگ میں ڈھل کے رہ جائے
Thursday, 22 October 2015
بلند از با وفا و جفا ہو گئے ہم
محبت سے بھی ماوراء ہو گئے ہم
اشاروں اشاروں میں کیا کہہ گئیں وہ
نگاہوں نگاہوں میں کیا ہو گئے ہم
تِرے دل میں تیری نظر میں سما کر
تمنائے ارض و سما ہو گئے ہم
شمع بھی ساز محفل ہے زینت ہے پروانہ بھی
حسن کی شانیں دیکھ ذرا راز بھی ہے افسانہ بھی
آنکھ تمہاری مست بھی ہے، مستی کا پیمانہ بھی
ایک چھلکتے ساغر میں مے بھی ہے میخانہ بھی
بیخودئ دل کیا کہنا سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں
ہستی سے مانوس بھی ہوں، ہستی سے بیگانہ بھی
دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا، مگر آباد نہیں
ڈھونڈنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے، جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے اُجاڑا گُلشن
پھُول کہتے رہے، ہم پھُول ہیں صیاد نہیں
اٹھا یہ کون ساغر و مینا لیے ہوئے
مستانہ لغزشوں کا سہارا لیے ہوئے
الزام کیوں ہے چشمِ تماشائے شوق پر
جلوے ہیں خود پیامِ تمنا لیے ہوئے
اب نازِ عاشقی کو ہے اس دن کا انتظار
وہ آئیں میرے در پہ تمنا لیے ہوئے
ہم کو تم سے تم کو ہم سے کام ہے
ماسوا کا غم جنونِ عام ہے
آؤ، گردن میں وہ باہیں ڈال دو
پریم جھُولا جن کا اصلی نام ہے
پھر اٹھا پہلو سے دامن کھینچ کر
پھر مِرا ذوقِ تجسس خام ہے
پریشاں ہوں حجاب جسم و جاں سے
یہی پردے نہ اٹھے درمیاں سے
عبارت آستاں سجدوں سے میرے
مِرے سجدے عبارت آستاں سے
زمانہ بھر نے ٹھکرایا ہے ہم کو
اٹھا دو تم بھی اپنے آستاں سے
خود مٹ کے محبت کی تصویر بنائی ہے
آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا
وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے
اے میرے دل ناداں تو غم سے نہ گھبرانا
اے میرے دلِ ناداں تُو غم سے نہ گھبرانا
ہم تم سے جدا ہو کے مر جائیں گے رو رو کے
ہمارے سامنے بے گانہ وار آؤ نہیں
نیازِ اہلِ محبت کو آزماؤ نہیں
ہمیں بھی اپنی تباہی پہ رنج ہوتا ہے
ہمارے حالِ پریشاں پر مسکراؤ نہیں
جو تار ٹوٹ گئے ہیں وہ چِھڑ نہیں سکتے
کرم کی آس نہ دو، بات کو بڑھاؤ نہیں
نا شگفتہ کلیوں میں شوق ہے تبسم کا
بار سہہ نہیں سکتیں دیر تک تلاطم کا
جانے کتنی فریادیں ڈھل رہی ہیں نغموں میں
چھِڑ رہی ہے دُکھ کی بات نام ہے ترنم کا
کتنے بے کراں دریا پار کر لیے ہم نے
موج موج میں جن کی زور تھا تلاطم کا
اور کیا محبت میں حال زار ہستی ہے
سر وبالِ گردن ہے، جان بارِ ہستی ہے
دل اِدھر ہے پژمُردہ، جاں اُدھر ہے افسُردہ
کس کو ان حوادث پر اعتبارِ ہستی ہے
آسماں اسے پِیسے، آپ اس کو ٹھُکرائیں
پائمال صد آفت، خاکسارِ ہستی ہے
کوئی شیریں لب نہ سمجھے اپنا دیوانہ ہمیں
یاد ہے فرہاد کی الفت کا افسانہ ہمیں
منہ لگانا کس کا، تیری چشمِ میگوں کی قسم
دیکھنے کو بھی نہیں ملتا ہے پیمانہ ہمیں
ہم سے دیوانوں کو آبادی سے دلچسپی کہاں
بیچ ڈالیں گھر بھی ہاتھ آئے جو ویرانہ ہمیں
اک خط پڑا تھا یار کے در پر کھلا ہوا
دیکھا تو عشق کا ہے وہ دفتر کھُلا ہوا
حیرت ہے رہ گیا ہے یہ کیونکر کھلا ہوا
ہے تیرا در کہ میرا مقدر کھلا ہوا
قاصد سے کیا چھپاؤں کروں کیوں لفافہ بند
سب میرا حالِ زار ہے اس پر کھلا ہوا
دل جھکا مائل طبیعت ہو گئی
آج بسم اللہ الفت ہو گئی
محو دل سے سب شکایت ہو گئی
سامنے جب ان کی صورت ہو گئی
میرا حالِ زار تو دیکھا، مگر
یہ نہ پوچھا کیوں یہ حالت ہو گئی
وہ اجنبی: وہ مہر و ماہ و مشتری کا ہم عناں کہاں گیا
یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے
Wednesday, 21 October 2015
کسی صورت جنوں کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
بہار آتی ہے، لیکن خانہ ویرانی نہیں جاتی
وہ آتے ہیں مگر میرا تڑپنا کم نہیں ہوتا
وہ ملتے ہیں مگر میری پریشانی نہیں جاتی
وہ یوں آتے ہیں جیسے گھر کی صورت تک نہیں دیکھی
وہ یوں ملتے ہیں گویا شکل پہچانی نہیں جاتی
ستاروں کی ضیا بن کر فرشتوں کا سلام آیا
زبانِ بسملِ وارفتہ پر جب ان کا نام آیا
دو عالم نور میں ڈوبے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
بھری محفل میں کیا بے پردہ وہ ماہِ تمام آیا
وہ پابندِ محبت ہو گئے اٹھتی جوانی میں
جوانی ہو گئی آسودہ جب ان کا سلام آٰیا
یہاں انسان کچھ ملتے تو ہیں کامل نہیں ملتے
اگر اہلِ نظر ملتے ہیں، اہلِ دل نہیں ملتے
نگاہوں سے نگاہیں مل تو جاتی ہیں کسی پہلو
مگر، یہ کیا قیامت ہے کہ دل سے دل نہیں ملتے
تڑپ کو حسن خود بابِ محبت پر جبیں رکھ دے
مگر عہدِ محبت میں اب اہلِ دل نہیں ملتے
مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا
میں چپ کھڑا تھا تعلق میں اختصار جو تھا
اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چن رہا ہوں میں
ادھر کی آئے گی اک رو ادھر کی آئے گی
ہمارے میکدے کا اب نظام بدلے گا
ہم اپنا ساقی جو بدلیں گے، جام بدلے گا
ابھی تو چند ہی میکش ہیں باقی سب تشنہ
وہ وقت آ گیا ہے جب تشنہ کام بدلے گا
یہ الٹی الٹی ہوائیں ہیں وجہِ سست روی
ہوائیں بدلیں گی، طرزِ خرام بدلے گا
زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے، حقیقت اور ہوتی ہے
نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے
یہ مانا، شیشۂ دل💝 رونقِ بازارِِ الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے
آج کی شام ہے کس درجہ حسیں کتنی اداس
ہو بھری بزم میں تنہائی کا جیسے احساس
اٹھنے ہی والا ہے پھر کیا کوئی طوفاں نیا
پھر طبیعت ہوئی جاتی ہے زیادہ حساس
آج کیوں ان میں نہیں جرأتِ تعزیر، کہ ہم
منتظر کب سے کھڑے ہیں رسن و دار کے پاس
تجھ سے مل کے دل میں رہ جاتی ہے ارمانوں کی بات
یاد رہتی ہے کسے ساحل پہ طوفانوں کی بات
وہ تو کہیے آج بھی زنجیر میں جھنکار ہے
ورنہ کس کو یاد رہ جاتی ہے دیوانوں کی بات
کیا کبھی ہو گی کسی کی تُو، مگر اے زندگی
جان دے کر ہم نے رکھ لی تیرے دیوانوں کی بات
مرے حوصلوں کو فضائے بال و پر کی تلاش ہے
مِرے گلستاں کو نئے نظام گُل و شجر کی تلاش ہے
مجھے اس جنوں کی ہے جستجو جو چمن کو بخش دے رنگ و بُو
جو نوید فصل بہار ہو، مجھے اس نظر کی تلاش ہے
مجھے اس سحر کی ہو کیا خوشی جو ہو ظلمتوں میں گھِری ہوئی
مِری شام غم کو جو لوٹ لے مجھے اس سحر کی تلاش ہے
آنکھوں سے عزیز گل مرا تھا
آنکھوں سے عزیز گل مرا تھا
پتلی وہی چشم حوض کا تھا
گلچیں کا جو ہائے! ہاتھ ٹوٹا
غنچہ کے بھی منہ سے کچھ نہ پھوٹا
او خات پڑا نہ تیرا چنگل
مشکیں کس لیں نہ تُو نے سنبل
گلچیں نے وہ پھول جب اڑایا
Tuesday, 20 October 2015
راز خود مشتہر ہو تو میں کیا کروں
جب میرے راستے میں کوئی میکدہ پڑا
جب بھی نظم میکدہ بدلا گیا
میرے چہرے سے غم آشکارا نہیں
صحن حرم و کوئے صنم چھوڑ دیا ہے
کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن
ساقی تیری محفل میں ہم جام اچھالیں گے
ڈوبنے والے کی میت پر لاکھوں رونے والے ہیں
درد وہ لاحق ہوا جس کی دوا کوئی نہیں
درد وہ لاحق ہوا جس کی دوا کوئی نہیں
میں جنم ہی سے اکیلا ہوں مِرا کوئی نہیں
اس کا رستہ دیکھتا ہوں میں کہ جو ہے ہی نہیں
گھر وہ ڈھونڈا ہے کہ جس کا راستہ کوئی نہیں
حوصلہ دیکھو کہ پھر بھی جی رہا ہوں شوق سے
ایسی بستی میں کہ جس میں آشنا کوئی نہیں
میں نے ہی نہ کچھ کھویا جو پایا نہ کسی کو
میں نے ہی نہ کچھ کھویا جو پایا نہ کسی کو
اس نے بھی تو پورا نہ کیا میری کمی کو
ہے موجزن اک قلزمِ خوں سینے میں اب تک
درکار نہیں اور مِری تشنہ لبی کو
ہنستے انہیں دیکھا تو بہٹ پھُوٹ کے روئے
جو لوگ ترستے رہے اک عمر ہنسی کو
Monday, 19 October 2015
آنے میں جھجک ملنے میں حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
اب عہدِ وفا ٹوٹا کہ رہا، تم اور کہیں ہم اور
آئے تو خوشامد سے آئے، بیٹھے تو مروت سے بیٹھے
ملنا ہی یہ کیا جب دل نہ ملا، تم اور کہیں ہم اور
وعدہ بھی کیا تو کی نہ وفا، آتا ہے تمہیں چرکوں میں مزا
چھوڑو بھی ضد، لطف اس میں ہے کیا، تم اور کہیں ہم اور
پردہ جو دوئی کا اٹھ جائے پھر دو نہ رہیں افسانے دو
دھوکا ہے یہ نامِ دیر و حرم، بت ایک ہی ہے بتخانے دو
پروانہ جو چپ ہے تو رہنے دو کیا کہتی ہے شمع ادھر دیکھو
کہنے سے سمجھنا مشکل ہے، ایک زباں افسانے دو
آنکھیں وہ رسیلی صبر شکن اور جوش بھرا دل بے قابو
بھڑکی ہوئی پیاس یہ گرمی کی اور چھلکے ہوئے پیمانے دو
ہو کے دل دوز نظر زیست کا ساماں ہو جائے
یوں چبھے سینے میں نشتر رگَ جاں ہو جائے
ضد وفا سے ہے تو اب لیں گے جفا کا اقرار
شوق یہ ہے کہ کسی طرح نہیں 'ہاں' ہو جائے
بسط دے اپنے تصور کو جو مجبور اسیر
وسعتِ صحنِ چمن داخلِ زنداں ہو جائے
کھو کے دل عشق میں جلنے کے سوا کیا دیکھا
ہم بھی ایسے تھے کہ گھر پھونک تماشا دیکھا
عیش ممکن ہے مگر عیشِ جوانی وہ کہاں
جو 'گیا' پھر نہ 'پلٹتے' وہ 'زمانا' دیکھا
کچھ تو کرتی ہے اشارے تِری آنکھوں کی جھپک
ہاتھ جب ہم نے رکھا دل تہ و بالا دیکھا
Sunday, 18 October 2015
غزلیں تو کہی ہیں کچھ ہم نے ان سے نہ کہا احوال تو کیا
کل مثلِ ستارہ ابھریں گے، ہیں آج اگر پامال تو کیا
جینے کی دعادینے والے! یہ راز تجھے معلوم کہاں
تخلیق کا اک لمحہ ہے بہت، بے کار جئے سو سال تو کیا
سِکوں کے عِوض جو بِک جائے وہ میری نظر میں حُسن نہیں
اے شمعِ شبستانِ دولت! تُو ہے جو پری تمثال تو کیا
اپنوں نے وہ رنج دئیے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اس نگری میں قدم قدم پر سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں
ایسے ایسے درد مِلے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو
بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں
کون بتائے کون سمجھائے کون سے دیس سدھار گئے
ان کا رستہ تکتے تکتے، نین ہمارے ہار گئے
کانٹوں کے دکھ سہنے میں تسکین بھی تھی آرام بھی تھا
ہنسنے والے بھولے بھالے پھول چمن کے مار گئے
ایک لگن کی بات ہے جیون، ایک لگن ہی جیون ہے
پوچھ نہ کیا کھویا کیا پایا، کیا جیتے، کیا ہار گئے
حسرت رہی کوئی یہاں دیدہ ور ملے
لیکن تِری گلی میں سبھی کم نظر مِلے
ایسے بھی آشنا ہیں نہ دیکھا جنہیں کبھی
نا آشنا تھے وہ بھی جو شام و سحر مِلے
شاید اس لیے ہمیں منزل نہ مِل سکی
جتنے بھی ہم کو لوگ مِلے، راہبر مِلے
چاند سے رابطہ رہا تیرہ شبی کے ساتھ ساتھ
یہ عجیب چادر تیرگی سر شہر یار ٹھہر گئی
پہلے تم نے سارے شہر کی سانسوں میں گرداب بھرے
یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ بس یہیں سے ملے
خلوص و مذہب و صدق و صفا تک
رنج سے کب مجھے فراغ ملا
Saturday, 17 October 2015
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
دیکھا گیا ہوں میں کبھی سوچا گیا ہوں میں
باتیں ہیں اجلی اجلی اور من اندر سے کالے ہیں
اس نگری کے سارے چہرے اپنے دیکھے بھالے ہیں
نینوں میں کاجل کے ڈورے رخ پہ زلف کے ہالے ہیں
من "مایا" کو لوٹنے والے کتنے بھولے بھالے ہیں
تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ "جبر" نہیں، تم تو بولو
ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت
وہی عزیز، اسی سے محبتیں تھیں بہت
وہ جب ملا تو دلوں میں کوئی طلب نہ رہی
بچھڑ گیا تو ہماری ضرورتیں تھیں بہت
ہر ایک موڑ پہ ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے
ہماری روح میں پنہاں قیامتیں تھیں بہت
پھول صحرا میں کھلا دے کوئی
میں اکیلا ہوں صدا دے کوئی
کوئی "سناٹا" سا سناٹا ہے
کاش! طوفان اٹھا دے کوئی
جس نے چاہا تھا مجھے پہلے پہل
اس ستم گر کا پتا دے کوئی
اگر وجود کا اپنے مجھے گماں ہوتا
سمندروں کی طرح میں بھی بیکراں ہوتا
میں اپنے سائے میں خود ہی پناہ لیتا
میرا حریف نہ سورج نہ آسماں ہوتا
نہ تھا خیال کہ منزل فریب دے گی مجھے
یہ حادثہ جو نہ ہوتا تو میں کہاں ہوں
ہوا کرے سب جہاں مخالف
نہ ہونا تم میری جاں مخالف
وضاحتیں اور دلیلیں کیسی
بنے ہوں جب نکتہ داں مخالف
ہے خوب بختِ رسا ہمارا
زمین اور آسماں مخالف
Friday, 16 October 2015
مستوں پہ انگلیاں نہ اٹھاؤ بہار میں
دیکھو تو ہوش ہے بھی کسی ہوشیار میں
کچھ محتسب کا خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ
پیتا ہوں چھپ کے دامنِ ابرِ بہار میں
وہ سامنے دھری ہے صراحی بھری ہوئی
دونوں جہاں ہیں آج مِرے اختیار میں
عشق میں چھیڑ چھاڑ ہوئی دیدہ تر سے پہلے
غم کے بادل جو اٹھے تو یہیں برسے پہلے
ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا
دل سے درد اٹھتا ہے پہلے، کہ جگر سے پہلے
دل کو اب آنکھ کی منزل میں بٹھا رکھیں گے
عشق گزرے گا اسی راہ گزر سے پہلے
کس شان سے رہتا ہے اللہ کا دیوانہ
انداز ہیں شاہانہ،۔۔ سامان گدایانہ
آمادۂ کج بحثی، عاشق بھی ہے ناصح بھی
اک عشق کا سودائی، اک عقل کا دیوانہ
توحید پہ ناز ایسا،۔۔ دل محوِ ایاز ایسا
توڑا نہ گیا تجھ سے محمود یہ بتخانہ
جلووں کا تقاضا ہے جلنے کا تہیہ ہے
یہ دل ہے کہ موسیٰؑ ہے، سینہ ہے کہ سینا ہے
اے بے خودئ حیرت! یہ بھی نہ کھُلا تجھ پر
موسٰیؑ ہے کہ جلوہ ہے جلوہ ہے کہ موسٰیؑ ہے
اس جلوے کی ماہیئت معلوم نہیں کیا ہے
جو خود ہی تماشائی، جو خود ہی تماشا ہے
Thursday, 15 October 2015
دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے
ہم دل سے کلمہ گو کسی کافر کے ہو گئے
اے چشمِ یار! مان گئے تیرے سحر کو
دل دے کے معتقد تیرے منتر کے ہو گئے
اٹھے نہ بیٹھ کر کبھی کُوئے حبیب سے
اس در پہ کیا گئے کہ اسی در کے ہو گئے
تھے پری حور ہو کے آئے ہیں
پیکرِ نور ہو کے آئے ہیں
اے مسیحا نفس تیرے در پر
بڑے مجبور ہو کے آئے ہیں
آج ساقی سے لڑ گئی تھی نظر
نشے میں چور ہو کے آئے ہیں
بہر صورت ہیں ہم شیرینیِ گفتار کے صدقے
تیرے اقرار کے صدقے تِرے انکار کے صدقے
سراپا چشم ہیں ہم انتظارِ یار کے صدقے
ہمیں بخشا ہے یہ ذوقِ نظر دلدار کے صدقے
زہے قسمت کہ پروانہ صفت عشاق ہوتے ہیں
فروغِ حسنِ جاناں، گرمئ بازار کے صدقے
فریب وعدہ روز شمار رہنے دے
کہ یار کل کا کسے اعتبار رہنے دے
نویدِ موسمِ گُل دے نہ تُو اسیروں کو
نہ چھیڑ ان کو نسیمِ بہار، رہنے دے
کرم نہیں نہ سہی، تُو ستم ہی کر ہم پر
یہ راہ و رسم مگر برقرار رہنے دے
اب ایسے حال میں کیا حال بیکساں کہیے
وہ کہہ رہے ہیں میاں مِری ہاں میں ہاں کہیے
اب ایسا دن بھی یہاں دیکھنا پڑا ہم کو
انہیں یہ ضد ہے قفس ہی کو آشیاں کہیے
یہ کش مکش یہ ستم، مصلحت یہ مجبوری
چمن اجاڑنے والوں کو باغباں کہیے
تلوار بنو درد کے مارے ہوئے لوگو
یوں ہار کے بیٹھو نہیں ہارے ہوئے لوگو
ہمت ہو تو تعبیریں بھی کرتی ہیں عنایت
آنکھوں میں چلو خواب سنوارے ہوئے لوگو
تم مٹی ہو، مٹی کو حقارت سے نہ دیکھو
اے عرشِ معلیٰ سے اتارے ہوئے لوگو
سب کی پگڑی سر بازار ہے کیا عرض کروں
رہنماؤں کا وہ کردار ہے کیا عرض کروں
جس کو سردار قبیلے کا بنایا تھا، وہی
غیر کے ہاتھ کی تلوار ہے کیا عرض کروں
مانگنا اس کو خدا سے بھی برا لگتا ہے
کس قدر دل مِرا خوددار ہے کیا عرض کروں
درد کے شہر سے ہجرت کی دعا مانگتا ہے
دل رسولوں کی طرح ارضِ وفا مانگتا ہے
آزمائش سے گزرنے کی نہیں ہے ہمت
معجزوں کے لیے ہر شخص عصا مانگتا ہے
میرے اللہ! مِرے فن کو نہیں اور طلب
بے نواؤں کے لیے حرفِ نوا مانگتا ہے
ہے کس کو ہوش تاب رخ یار دیکھ کر
ہے کس کو ہوش تابِ رخِ یار دیکھ کر
سب ہو گئے ہیں نقش بہ دیوار دیکھ کر
پوری نہ ہو گی حسرتِ دیدار دیکھ کر
سو بار دیکھیے انہیں سو بار دیکھ کر
اے مستِ ناز دیکھنے والوں کے دل تو دیکھ
پامال ہو گئے تِری رفتار دیکھ کر
محبت میں شب تاریک ہجراں کون دیکھے گا
محبت میں شبِ تاریکِ ہجراں کون دیکھے گا
ہم ہی دیکھیں گے، یہ خواب پریشاں کون دیکھے گا
ان آنکھوں سے تجلی کو درخشاں کون دیکھے گا
اٹھا بھی دو نقاب روئے تاباں کون دیکھے گا
یہی اک رات ہے بس کائناتِ زندگی اپنی
سحر ہوتی ہے اے شامِ ہجراں کون دیکھے گا
مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے
کبھی ایک دجلہ ہے خون کا کبھی ایک بُوند لہُو کی ہے
کبھی چاک خُوں سے چپک گیا کبھی خار خار پِرو لیا
مِرے بخیہ گر نہ ہوں معترض کہ یہ شکل بھی تو رفُو کی ہے
نہ بہار ان کی بہار ہے نہ وہ آشیاں کے نہ وہ باغ کے
جنہیں ذکر قید و قفس کا ہے جنہیں فکر طوق و گلُو کی ہے
بار حیات اٹھائیے تنہا اٹھائیے
یہ بوجھ آپ سے نہیں اٹھتا اٹھائیے
وحشت میں خاک اڑانی ہی مقسوم ہے تو پھر
اک مشتِ خاک کیا سرِ صحرا اٹھائیے
ان خفتگانِ راہ کو ہمراہ لے چلیں
قدموں کے ساتھ نقشِ کفِ پا اٹھائیے
پیرہن کتنا سادہ رکھتے ہیں
جو قدم جادہ جادہ رکھتے ہیں
یہ جنونِ طلب کہ رہبر سے
دو قدم ہم زیادہ رکھتے ہیں
وہ بھی پڑتا ہے بر سرِ منزل
جو قدم بے ارادہ رکھتے ہیں
بند غم مشکل سے مشکل تر کھلا
ہم سے جب کوئی پری پیکر کھلا
جاں ستانی کے نئے انداز ہیں
ہاتھ میں غمزے کے ہے خنجر کھلا
میری وحشت نے نکالے جب سے پاؤں
ایک صحرا صحن کے اندر کھلا
آسماں سر پہ ہے جہاں جاؤں
یہ زمیں لے کے اب کہاں جاؤں
ہم قدم روزگار کا ہو کر
میں کہاں تک رواں دواں جاؤں
مجھ سے کھوئی گئی شناخت مِری
بھیڑ میں ڈھونڈنے کہاں جاؤں
ربط کیا جسم و جاں سے اٹھتا ہے
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
تُو ہی رہتا ہے دیر تک موجود
بزم میں تُو جہاں سے اٹھتا ہے
آگ پہلے ہمِیں نے سُلگائی
اب دُھواں ہر مکاں سے اٹھتا ہے
موسم ہجر و وصال اچھا ہے
اک شرر ہر نفس میں آتا ہے
سوزِ جاں کس کے بس میں آتا ہے
سر بسر میں اسیر ہوتا ہوں
جب بھی کوئی قفس میں آتا ہے
اس کا دامن میرا گریباں ہو
جب کہیں دسترس میں آتا ہے
Wednesday, 14 October 2015
سلوک یاد ہیں اب تک نظر نظر کے مجھے
صفائی اور نہ دیں لوگ اس نگر کے مجھے
بھلا چکے ہیں سبھی لوگ میرے گھر کے مجھے
سلام آنے لگے کیوں بام و در کے مجھے
شبِ فراق تِرا غم سمیٹتا کیوں کر
کہ اپنی زیست ہی ملتی رہی بکھر کے مجھے
آپ جن کو خدا سمجھتے ہیں
سب خدا جانے کیا سمجھتے ہیں
جس نے قاتل کا روپ دھارا ہے
ہم اسے دلربا سمجھتے ہیں
ہم نے ہر زاویے سے دیکھا ہے
حسن کی ہر ادا سمجھتے ہیں
ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا
وصل کی شب اور اتنی کالی
ان آنکھوں میں کاجل ہو گا
کس نے کیا مہمیز ہوا کو
شاید ان کا آنچل ہو گا
میں نے کیا کیا نہ حادثے دیکھے
صاف چہرے تھے، ملگجے دیکھے
زندگی پر محیط غم تیرا
میں نے جتنے بھی سلسلے دیکھے
جان دے دی کہ وہ نہ رُسوا ہوں
عشق والوں کے حوصلے دیکھے
کس اعتماد سے الزام دھر گئے اپنے
یہ اطمینان دل کو ہے کہ ہم گھر بار رکھتے ہیں
خنجر کی طرح بوئے سمن تیز بہت ہے
گو رات مری صبح کی محرم تو نہیں ہے
مسرتوں کو یہ اہل ہوس نہ کھو دیتے
زندگی تجھ کو منانے نکلے
ہم بھی کِس درجہ دِوانے نکلے
کچھ تو دُشمن تھے مخالف صف میں
کچھ مِرے دوست پُرانے نکلے
اس نے پھر موند لیں آنکھیں اپنی
ہر طرف آئینہ خانے نکلے
دوست سفاک ہیں مرنے نہیں دیتے مجھ کو
میں کہ اک زخم ہوں بھرنے نہیں دیتے مجھ کو
جانے کیا جرم ہُوا ہے کہ مِرے شہر کے لوگ
اس کی گلیوں سے گزرنے نہیں دیتے مجھ کو
میں اگر ڈوبنا چاہوں تو بچا لیتے ہیں لوگ
اور ابھروں تو ابھرنے نہیں دیتے مجھ کو
بلا کی پیاس ہے دریا کے دو کناروں کو
سمجھ سکے تو سمجھ میرے استعاروں کو
جو پیش پیش رہا ہر گناہ میں، یارو
طلب کِیا ہے اسی نے گناہ گاروں کو
ہر ایک ظلم کو سہتے رہے سبھی ہنس کر
کسی نے کم نہ کیا اس کے اختیاروں کو
Tuesday, 13 October 2015
میں ایک رات محبت کے سائبان میں تھا
مِرا تمام بدن، رُوح کی کمان میں تھا
دھنک جلی تھی فضا خُون سے مُنور تھی
مِرے مزاج کا اِک رنگ آسمان میں تھا
جو سوچتا ہوں اپسے، دل میں پھُول کھِلتے ہیں
وہ خُوش نگاہ نہیں تھا، تو کون دھیان میں تھا
خاک نیند آئے اگر دیدۂ بے دار ملے
اس خرابے میں کہاں خُواب کے آثار مِلے
اس کے لہجے میں قیامت کی فسوں کاری تھی
لوگ آواز کی لذت میں گرفتار مِلے
اس کی آنکھوں میں محبت کے دِیے جلتے رہیں
اور پندار میں اِنکار کی دیوار مِلے
تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے
خدا پہ ناز خدا زاد کیوں نہیں کرتے
عجب کہ صبر کی معیاد بڑھتی جاتی ہے
یہ کون لوگ ہیں، فریاد کیوں نہیں کرتے
رگوں میں خون کی مانند ہے سکوت کا زہر
کوئی مکالمہ ایجاد کیوں نہیں کرتے
دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے، گِریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے، تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرارِ کائنات سے پردہ نہ کر ابھی
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن
اِک رات کے راہی ہیں، گزر جائیں گے اِک دن
یوں دل میں اُٹھی لہر، یوں آنکھوں میں بھرے رنگ
جیسے مِرے حالات سنور جائیں گے اِک دن
دل آج بھی جلتا ہے اسی تیز ہوا میں
اے تیز ہوا! دیکھ، بِکھر جائیں گے اِک دن
اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے
تُو اپنے گہن میں ہے تو میں اپنے گہن میں
دو چاند ہیں اِک ابر میں گہہ بھی نہیں سکتے
ہم جسم ہیں اور دونوں کی بنیادیں امر ہیں
اب کیسے بچھڑ جائیں کہ ڈھہ بھی نہیں سکتے
تمام عمر مجھے قید اشتباہ میں رکھ
نظر شناس، مِرا شوق بھی نِگاہ میں رکھ
مِلی ہے تمکنتِ شعلۂ خیال تجھے
ہَوا سہار سکے تو چراغ راہ میں رکھ
بہت اُداس نہ ہو وقفۂ جُدائی میں
امیدِ نُور بھی اس عرصۂ سیاہ میں رکھ
یہ کیا کہ زہر سبز کا نشہ نہ جانیے
اب کے بہار میں ہمیں افسانہ جانیے
جل جل کے لوگ خاک ہوئے نارِ خوف سے
یہ زندگی سراب ہے، دریا نہ جانیے
یہ خوابنائے درد ہمیں چشمۂ حیات
ہم لوگ سیر چشم ہیں، پیاسا نہ جانیے
ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے، مر نہیں گئے
آج اپنے گھر میں قید ہیں، ان سے حجاب ہے
جو گھر سے بے نیاز ہوئے، گھر نہیں گئے
اپنے لہو میں جاگ رہی تھی نمُو کی آگ
آنکھوں سے اس بہار کے منظر نہیں گئے
ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اتر کے نہ جا
اس ایک آن میں سب کچھ تباہ کر کے نہ جا
مجھے حجاب نہیں بوسۂ جدائی سے
مگر لبوں کے پیالے میں پیاس بھر کے نہ جا
مِرے خیال میں تیرا کوئی جواز نہیں
خدا کی طرح مِری ذات میں بکھر کے نہ جا
بستی بستی پربت پربت سانجھ جب گہرا جائے ہے
نین جھروکے دِھیرے دِھیرے دِیپ کوئی جل جائے ہے
میرے آنگن کے بیلے میں پھول کھِلے ہوں گے شاید
گھر سے دُور بدیسوں میں بھی خُوشبو مجھ کو آئے ہے
شام ہوئی اور سارے پنچھی گھر کو اپنے لوٹ گئے
دیکھو مَن کا پاگل پنچھی لَوٹ کے گھر کب آئے ہے
پلکوں پہ اس کے ایک ستارا تھا اور بس
زادِ سفر یہی تو ہمارا تھا اور بس
بنجر سماعتوں کی زمین کیسے کھِل اٹھی
تم نے تو میرا نام پکارا تھا اور بس
میری فصیلِ ذات پہ چھایا کُہر چھٹا
آنکھوں میں اس کے ایک شرارا تھا اور بس
محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی
محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی
ہوا پُر زور ہے، پُر شور ہے، منہ زور ہے، لیکن
ہوا چالاک ہے، سفاک ہے، بے باک ہے، لیکن
ہوا یلغار ہے، آزار ہے، تلوار ہے، لیکن
ہوا بے مہر وحشی لہر ہے، پُر قہر ہے، لیکن
محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی
ترک تعلق کھیل نہیں ہے پہلے پہل گھبرائے بہت
اپنی انا کے پاگل پن پر اکثر ہم پچھتائے بہت
اس کو بھی معلوم نہیں تھا، ہم بھی کچھ ناواقف تھے
عشق سے مشکل کھیل میں پڑنا دونوں کو تڑپائے بہت
فرطِ حیا سے سُرخ ہوا تھا، میرے عرضِ حال پہ جو
جتنا اس کو بھُولنا چاہوں، وہ چہرہ یاد آئے بہت
بڑی پرسکون تھی یہ زندگی نیا درد کس نے جگا دیا
کسی بے نیاز نگاہ نے، مِری وحشتوں کو بڑھا دیا
مِرے کم سُخن کا یہ حُکم تھا کہ کلام اُس سے میں کم کروں
مِرے ہونٹ ایسے سِلے کہ پھر مِری چُپ نے اس کو رُلا دیا
مجھے اپنے عشق پہ ناز تھا، مگر اس کے قول کا پاس تھا
مِرے چارہ ساز بھی رو پڑے، وہ کمالِ ضبط دِکھا دیا
بزم جنوں میں ایسے بھی کچھ لوگ مل گئے
ہم شاد کام آئے تھے، اور مُضمحل گئے
صد رنگ رنگ محفلِ ہنگامہ و نِشاط
آباد جن کے دَم سے تھی وہ اہلِ دِل گئے
وہ لمحۂ سُرور کہ محسوس یوں ہوا
جیسے ہمارے کھوئے ہوئے خواب مِل گئے
سمجھوتہ: خوشحال سے تم بھی لگتے ہو
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا
کسی گُلاب کو ٹہنی سے توڑ کر بھی نہیں
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا
سُبک کلائی میں گجرے کبھی پہنتے ہوئے
گُلاب ہاتھوں پہ مہندی کبھی لگاتے ہوئے
سفید دُودھیا آنچل کو زرد رنگتے ہوئے
Monday, 12 October 2015
ساغر اٹھا لیا کبھی مینا اٹھا لیا
توبہ جو یاد آ گئی رکھا، اٹھا لیا
لاتا ہے روز جان پر آفت نئی نئی
جا تجھ سے ہاتھ اے دلِ شیدا اٹھا لیا
مثلِ نسیم پھر نہ لیا اک جگہ قرار
جس نے تِری تلاش کا بیڑا اٹھا لیا
اک بے وفا پہ جان کو وارے چلے گئے
بند تھا جن پر فرات آرزو پھرتے رہے
اپنے ہاتھوں میں لیے خالی سبُو پھرتے رہے
گُنگ تھیں سب کی زبانیں خوفِ حاکم کے سبب
لوگ ہونٹوں میں دبائے گُفتگُو پھرتے رہے
حُسن تھا ہنگامہ آراء اندرونِ ذات، اور
بے خبر عشاق دشت و کاخ و کُو پھرتے رہے
قفس میں بھی غیر مطمئن اور اڑان سے بھی
رہا پرندے کو خوف تیر و کمان سے بھی
یقین پر بھی تھی معترض سی یہ بے یقینی
میں بدگُماں سا رہا ہمیشہ گُمان سے بھی
کیا گیا تھا کہیں سے پہلے بھی بے ٹھکانہ
میں منتقل ہو رہا ہوں اب خاکدان سے بھی
ذرا بتلا زماں کیا ہے مکاں کے اس طرف کیا ہے
اگر یہ سب گماں ہے، تو گماں کے اس طرف کیا ہے
اگر پتھر سے بکھرے ہیں تو آخر یہ چمک کیسی
جو مخزن نور کا ہے، کہکشاں کے اس طرف کیا ہے
یہ کیا رستہ ہے، آدم گامزن ہے کس مسافت میں
نہیں منزل تو پھر اِس کارواں کے اس طرف کیا ہے
گلی سے اپنی اٹھاتا ہے وہ بہانے سے
میں بے خبر رہوں دنیا کے آنے جانے سے
کبھی کبھی تو غنیمت ہے یاد رفتہ کی
بٹھا نہ روز لگا کے اسے سرہانے سے
عجیب شخص تھا میں بھی بھلا نہیں پایا
کیا نہ اس نے بھی انکار یاد آنے سے
جب نشاں ملتا نہیں کھوئے ہوئے ایام کا
تذکرہ کیسے کریں اس شہرِ دل آرام کا
کر دیا سورج نے شاید دوپہر کو منجمد
یا ہُوا ہے دھوپ میں تحلیل سایہ شام کا
داخلہ ممنوع ٹھہرا میرا میری ذات میں
دائرہ کھینچا کسی نے جب سے اپنے نام کا
موت کی تجارت کو زندگی نہیں کہتے
آدمی کے دشمن کو آدمی نہیں کہتے
داغدار اجالے پر یہ سحر نہ اِترائے
برص کی سفیدی کو روشنی نہیں کہتے
کیف پا نہیں سکتے ذکرِ صبحِ روشن سے
آپ تیرگی کو بھی تیرگی نہیں کہتے
موقع یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا
شرط جینے کی لگادی مجھے مرنے نہ دیا
کم سے کم میں غمِ دنیا کو بھلا سکتا تھا
پر تِری یاد نے یہ کام بھی کرنے نہ دیا
اس رفاقت پہ فدا میری پریشاں حالی
اپنی زلفوں کو کبھی تُو نے سنورنے نہ دیا
دل میں مرے خیال ہے تنہا نہ آپ کا
مے خانہ بنتا جاتا ہے پیمانہ آپ کا
جانا کوئی ضرور نہیں ماورائے ارض
آخر یہیں کہیں تو ہے کاشانہ آپ کا
رگ رگ میں بھرتے جاتے ہیں شعلے حیات کے
خود شمع بنتا جاتا ہے پروانہ آپ کا
ساغر سفالیں کو جام جم بنایا ہے
پھیل کر میرے دل نے میں کو ہم بنایا ہے
ناز ہے خلیلی کو جس نقشِ ثانی پر
گرچہ آذری ہی نے یہ حرم بنایا ہے
بت ہزار توڑے ہیں لاکھ ٹکڑے جوڑے ہیں
زندگی نے جب جا کر اک صنم بنایا ہے
جلتے رہنا کام ہے دل کا بجھ جانے سے حاصل کیا
اپنی آگ کے ایندھن ہیں ہم، ایندھن کا مستقبل کیا
بولو! نقوشِ پا کچھ بولو، تم تو شاید سنتے ہو
بھاگ رہی ہے راہگزر کے کان میں کہہ کر منزل کیا
ڈوبنے والے دیکھ رہے ہو تم تو کشتی کے تختے
دیکھو دیکھو غور سے دیکھو دوڑ رہا ہے ساحل کیا
Sunday, 11 October 2015
کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے
کف مومن سے نہ دروازۂ ایماں سے ملا
تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں
نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے
لگے بجھانے کہ ہمسائے، ڈر گئے اپنے
میں اپنی لاش کو تنہا ہی دفن کر لوں گا
کہ تم بھی جاؤ، سبھی لوگ گھر گئے اپنے
یہ روزگار کی آندھی بھی خوب آندھی ہے
ذرا سی تیز ہوئی تھی، بکھر گئے اپنے
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
کچھ اس طرح سے عبادت خفا ہوئی ہم سے
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے
لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
اس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی مرثیہ میرا
حال دل میں نے جو دنیا کو سنانا چاہا
اب ہر کسی کو ان کا طلب گار دیکھ کر
برطرف کر کے تکلف اک طرف ہو جائیے
مستقل مل جائیے، یا مستقل کھو جائیے
کیا گلے شکوے کہ کس نے کس کی دلداری نہ کی
فیصلہ کر ہی لیا ہے آپ نے، تو جائیے
میری پلکیں بھی بہت بوجھل ہیں گہری نیند سے
رات کافی ہو چکی ہے، آپ بھی سو جائیے
سب کا دلدار ہے دلدار بھی ایسا ویسا
اک مِرا یار ہے اور یار بھی ایسا ویسا
دشمنِ جاں بھی نہیں کوئی برابر اس کے
اور مِرا حاشیہ بردار بھی ایسا ویسا
بے تعلق ہی سہی اس کو مگر ہے مجھ سے
اک سروکار، سروکار بھی بھی ایسا ویسا
محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے
وحشت کا یہ عالم ہے کہ پسِ چاکِ گریباں
رنجش ہے بہاروں سے، الجھتے ہیں خزاں سے
اک عمر ہوئی اس کے در و بام کو تکتے
آواز کوئی آئی یہاں سے، نہ وہاں سے
سچ کہا اے صبا صحن گلزار میں دل نہیں لگ رہا
سایہٴ سبز میں، صحبتِ یار میں، دل نہیں لگ رہا
روپ کیا شہر کا، شکل کیا گاؤں کی، دھوپ اور چھاؤں کی
ایک تکرار ہے، اور تکرار میں دل نہیں لگ رہا
وہ بدن اب کہاں، پیرھن اب کہاں، بانکپن اب کہاں
سب بیاباں ہُوا، تیرے بازار میں دل نہیں لگ رہا
تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے
ملنا بھی پڑ گیا تو خوشی سے نہیں ملے
دنیا تو کیا کہ خود سے بھی کرتے رہے گریز
جب تک ملے کسی، کسی سے نہیں ملے
ہم اپنے دشمنوں سے گلے مل کے آ گئے
جس کے لیے گئے تھے، اسی سے نہیں ملے
پھر مصر کے بازار میں نیلام ہوا کیوں
اے عشق! بتا، تیرا یہ انجام ہوا کیوں
ہم باعثِ راحت جسے سمجھے تھے وہ لمحہ
اب اپنے لئے باعثِ آلام ہوا کیوں
اے عشق! فلک پر تجھے لکھا جو خدا نے
پھر تیرا مقدر بھلا ابہام ہوا کیوں
درد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں
کس کی آس امید پہ اے دل آنکھیں روز بچھاتے ہیں
کیسے کہیں کہ کیسے گزاری ہے زندگی
صبح نہیں ہوئی ابھی صبح بخیر صاحبا
رنج کی رات تھی، گئی، صبح بخیر صاحبا
چشم کی کارگاہ کی، حُسن کی بارگاہ کی
آپ کی خواب گاہ کی، صبح بخیر صاحبا
فرصتِ نِیم شب سے ہو، لرزشِ زیرِ لب سے ہو
عرصۂ دل میں گونجتی، صبح بخیر صاحبا
ہمیں نہ چشم حقارت سے دیکھئے صاحب
محبتی ہیں، محبت سے دیکھیے، صاحب
دریچہ کھُلنے سے منظر نہیں کھُلا کرتے
یہ آسمان کبھی چھت سے دیکھیے، صاحب
گلاب شاخ سے، سیارگاں فلک سے ہیں
چراغ کو کسی نِسبت سے دیکھیے، صاحب
شب گریہ ہے مگر کوئی بھی آواز نہیں
اور خیموں سے اُدھر کوئی بھی آواز نہیں
رنگ بُجھتے ہوئے اور آئینے جل اُٹھتے ہوئے
ہر طرف رقصِ شرر، کوئی بھی آواز نہیں
ڈوبتے ہاتھ، سِسکتی ہوئی آنکھیں ہر سمت
سَیلِ پُر شور ہے، پر کوئی بھی آواز نہیں
سکوت سے بھی سخن کو نکال لاتا ہوا
یہ میں ہوں، لوحِ شکستہ سے لفظ اٹھاتا ہوا
مکاں کی تنگی و تاریکی بیشتر تھی سو میں
دِیے جلاتا ہُوا، آئینے بناتا ہُوا
تِرے غیاب کو موجود میں بدلتے ہوئے
کبھی میں خود کو تِرے نام سے بلاتا ہُوا
مرے دل کا میرے گریز پا کا معاملہ مرے ساتھ ہے
مگر اس سے بڑھ کے جو ماسوا کا معاملہ مِرے ساتھ ہے
کہیں رنج ہے کسی چشمِ ناز سے رسم و رَہ کی شکست کا
سرِ رَہ کہیں درِ نِیم وا کا معاملہ مِرے ساتھ ہے
ہے یہ وقت تیغ کے پاس کا، نہیں کچھ جواز قصاص کا
کہ عدُو کا اور مِرے خوں بہا کا معاملہ مِرے ساتھ ہے
دل تری راہگزر بھی تو نہیں کر سکتے
ہم تِری سمت سفر بھی تو نہیں کر سکتے
زندگی کاٹنا دشوار ہے اب اپنے بغیر
اور ایسے ہی بسر بھی تو نہیں کر سکتے
اب ہمیں تیری کمی بھی نہیں ہوتی محسوس
پر تجھے اس کی خبر بھی تو نہیں کر سکتے
Saturday, 10 October 2015
وہ نیچی نگاہیں وہ حیا یاد رہے گی
ہر سانس میں خود اپنے نہ ہونے کا گماں تھا
عمر گزری ہے التجا کرتے قصۂ غم لب آشنا کرتے
قصۂ غم لب آشنا کرتے
جینے والے تِرے بغیر اے دوست
مر نہ جاتے تو اور کیا کرتے
ہائے وہ قہرِ سادگی آمیز
کاش ہم پھر انہیں خفا کرتے
پاکستان میں کیا کیا ہو گا
تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں
اپنی نظر کدھر اٹھے، کوئی اِدھر اُدھر نہیں
روز شب اٹھتے بیٹھتے ان کی زبان پر، نہیں
کوئی 'نہیں' کی حد نہیں، شام نہیں سحر نہیں
کوئی یہاں سے چل دیا رونقِ بام و در نہیں
دیکھ رہا ہوں گھر کو میں، گھر ہے مگر وہ گھر ہے
نکھر آئی نکھار آئی سنور آئی سنوار آئی
گلوں کی زندگی لے کر گلستاں میں بہار آئی
مشیئت کو نہیں منظور دو دن پارسا رکھنا
اِدھر کی میں نے توبہ اور اُدھر فوراً بہار آئی
اسیرانِ قفس کو واسطہ کیا ان جھمیلوں سے
چمن میں کب خزاں آئی، چمن میں کب بہار آئی
بیکسی میں یہی ہوں پاس کہیں
میں کہیں ہوں مِرے حواس کہیں
میں تجھے باوفا سمجھتا ہوں
نہ غلط ہو مِرا قیاس کہیں
کعبہ و دَیر میں تو ڈھونڈ چکے
وہ نہ ہو دل کے آس پاس کہیں
آپ جن کے قریب ہوتے ہیں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں
جب طبیعت کسی پر آتی ہے
موت کے دن قریب ہوتے ہیں
مجھ سے ملنا، پھر آپ کا ملنا
آپ کس کو نصیب ہوتے ہیں
سوال وصل پہ عذر وصال کر بیٹھے
وہ کس خیال سے ایسا خیال کر بیٹھے
اب آؤ مان بھی جاؤ جو کچھ ہُوا وہ ہُوا
ذرا سی بات کا اتنا ملال کر بیٹھے
ہم اٹھتے بیٹھتے بھی ان کے پاس ڈرتے ہیں
وہ اور کچھ نہ الہیٰ خیال کر بیٹھے
چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے
ہمارے سامنے ساقی بہ ساغر جَم آئے
فروغِ آتشِ گُل ہی چمن کی ٹھنڈک ہے
سُلگتی چیختی راتوں کو بھی تو شبنم آئے
بس ایک ہم ہی لیے جائیں درس عِجز و نیاز
کبھی تو اکڑی ہوئی گردنوں میں بھی خم آئے
روح پرچھائیں ہے پرچھائیں سے کب پیار ہوا
جسم ہی تو وہ حقیقت ہے کہ دلدار ہوا
کوئی صورت بھی تو اس جیسی نہیں یاد آتی
کیسا لمحہ تھا کہ اِک عمر کا آزار ہوا
تجھ سے پہلے تو بہت سادہ و معصوم تھا دل
تجھ سے بِچھڑا تو کئی بار گنہگار ہوا
نگار شوق کی بے باکیوں سے کیا حاصل
جو دل اداس ہو، رنگینیوں سے کیا حاصل
نہ اب وہ رات نہ وہ حُسنِ گرمئ محفل
چراغِ صُبح تُنک تابیوں سے کیا حاصل
فسُردگی کی قسم! عزم لامکاں تک ہے
نہ پوچھ دوست کہ تنہائیوں سے کیا حاصل
یوں ہی وابستگی نہیں ہوتی
دُور سے دوستی نہیں ہوتی
جب دلوں میں غُبار ہوتا ہے
ڈھنگ سے بات بھی نہیں ہوتی
چاند کا حُسن بھی زمیں سے ہے
چاند پر چاندنی نہیں ہوتی
وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے
بہت کڑی دھوپ جھیلتا ہے
ابھی تو میرے ہی لب ہِلے تھے
مگر یہ کس شخص کی صدا ہے
اگر میں چپ ہوں تو سوچتا ہوں
کوئی تو پوچھے کہ بات کیا ہے
Friday, 9 October 2015
کہتے ہیں کس کو درد محبت کون تمہیں بتلائے گا
پیار کسی سے کر کے دیکھو خود ہی پتہ چل جائے گا
قاصد کی امید ہے یارو، قاصد تو آ جائے گا
لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا
سوچ لے اے تڑپانے والے! تُو رُسوا ہو جائے گا
میرا ذکر جہاں بھی ہو گا، تیرا نام بھی آئے گا
وقت پڑا تو پھیر لیں نظریں آس تھی جن آقاؤں سے
ہم نے کرم کی بھیک یہ پائی اپنے کرم فرماؤں سے
دُکھ سُکھ میں جو کام نہ آئے جس کا سایہ ساتھ نہ دے
میری نظر میں دُھوپ بھلی اس پیپل کی چھاؤں سے
خوشحالی کے دور میں یارو! یہ کیسی خوشحالی ہے
بچے روٹی مانگ رہے ہیں، بھُوکی پیاسی ماؤں سے
ترے در سے اٹھ کے جانا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
درِ غیر پہ ٹھکانہ، کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
جہاں یار ہو نہ میرا، ہو جہاں نہ اس کا پھیرا
وہاں میرا آنا جانا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
تِرا ذکرِ خیر دلبر! ہے ازل سے میرے لب پر
کسی اور کا فسانہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
مرے درد کی تجھے کیا خبر ہے جسے خبر کوئی اور ہے
تُو علاج رہنے دے چارہ گر، مِرا چارہ گر کوئی اور ہے
وہ جو آئینے کے ہے رُوبرُو، وہی آئینے میں ہے ہُوبہُو
یہ نہ سوچ یہ نہ خیال کر کہ اِدھر اُدھر کوئی اور ہے
ہیں جہاں میں ایک سے اک حسین کمی حسن والوں کی تو نہیں
جسے چاہتا ہوں میں ہمنشیں وہ حسیں مگر کوئی اور ہے
وہ اپنے حسن کا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجئے
وجودِ شمع خود پروانہ بن جائے تو کیا کیجئے
حقیقت میں برائے نام تھا میرا جنوں، لیکن
ذرا سی بات کا افسانہ بن جائے تو کیا کیجئے
ہر اک چہرہ نظر آنے لگے جب یار کا چہرہ
ہر اک چہرہ رخِ جانانہ بن جائے تو کیا کیجئے
لے کے حرم کی آرزو شیخ پئے حرم گئے
یار سے تھی غرض ہمیں، یار کے در پہ ہم گئے
جانے لگے تو عشق کا اور بڑھا کے غم گئے
کل وہ ہمارے حال پر کر کے بڑا کرم گئے
وعدے پہ ان کے کل کی شب مجھ کو یقین ہُوا نہ جب
میرے یقیں کے واسطے، کھا کے مِری قسم گئے
یارب اس غم سے سروکار نہ ہونے پائے
ساری دنیا ہو خفا، یار نہ ہونے پائے
دوست، دشمن کا طرفدار نہ ہونے پائے
گل جو ہے گل ہی رہے خار نہ ہونے پائے
روز و شب دردِ محبت سے تڑپتا ہی رہے
کبھی اچھا تِرا بیمار نہ ہونے پائے
ناشاد مرے بعد نہ رہنا اسے کہنا
خوش ہو کے غمِ ہجر کو سہنا، اسے کہنا
پردیس میں جا کر مجھے تم بھول نہ جانا
ہے یاد مجھے اس کا کہنا، اسے کہنا
عید آئی تھی پردیس میں لیکن تِری خاطر
جوڑا نیا میں نے نہیں پہنا، اسے کہنا
موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے
روٹھے دنیا سے جو ہم، یار منانے آئے
اچھے دن آئے تو میں نے یہ تماشا دیکھا
میرے دشمن بھی گلے مجھ کو لگانے آئے
آج مل کر میرے دشمن کا پتہ پوچھتے ہیں
مجھ سے ملنے، وہ نہ ملنے کے بہانے آئے
ترا آستاں ہے مرا حرم ترا کوچہ قبلہ مقام ہے
تِری یاد میری نماز ہے تِرا عشق میرا امام ہے
نہ رہے جو پیشِ نگاہ تُو مجھے کیوں ہو سجدے کی آرزو
جہاں تُو نہ ہو مِرے رُوبرُو وہاں سجدہ کرنا حرام ہے
پئے سجدہ شوق سے ہمنشیں جُھکی جا رہی ہے مِری جبیں
یہ دیار کیسا دیار ہے؟، یہ مقام کیسا مقام ہے؟
تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی
تڑپنے پہ میرے نہ پھر تم ہنسو گے، کبھی دل کسی سے لگا کر تو دیکھو
وفاؤں کی ہم سے توقع نہیں ہے، مگر ایک بار آزما کر تو دیکھو
زمانے کو اپنا بنا کر تو دیکھا، ہمیں بھی تم اپنا بنا کر تو دیکھو
خدا کے لئے چھوڑ دو اب یہ پردہ، کہ ہیں آج ہم تم نہیں غیر کوئی
شبِ وصل بھی ہے حجاب اس قدر کیوں، ذرا رخ سے آنچل ہٹا کر تو دیکھو
ان سے میری جھوٹی سچی کی جو برائی لوگوں نے
آخر مجھ سے روٹھ گئے وہ، ایسی لگائی لوگوں نے
ساتھ دیا جھوٹے لوگوں کا، رونا تو اس بات کا ہے
سچے تھے جو ان لوگوں سے، کی نہ بھلائی لوگوں نے
سب سے ہوئے وہ سینہ بہ سینہ، ہم سے ملایا خالی ہاتھ
عید کے دن جو سچ پوچھو تو، عید منائی لوگوں نے
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو، در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شانِ کریمی، مرحبا دونوں عالم کے والی
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظرِ کرم تم نے ڈالی
زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دِینِ حق کی بچا لی
وہ محمدؐ کا پیارا نواسہ جس نے سجدے میں گردن کٹا لی
کعبے میں جا کے یا کہیں پتھر تراش کر
ممکن ہو جس طرح بھی خدا کو تلاش کر
کوئی صدا ہے تُو تو مِرے دل میں ڈوب جا
ہے راز تو لبوں پہ مِرے خود کو فاش کر
وہ موم ہے اگر تو اسے دھوپ سے بچا
پتھر ہے اس کا دل تو اسے پاش پاش کر
حدیث درد کی پہلے کوئی کتاب لکھو
پھر اہلِ جور کے نام اس کا انتساب لکھو
خوشی کے لمحے لکھو، عمرِ اضطراب لکھو
نکالو وقت کبھی، عشق کا حساب لکھو
تمہارے خواب کی تعبیر اب پرائی سہی
تمہارا خواب تو اپنا ہے، اپنا خواب لکھو
عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
سِسکتی پیاس لبوں پر، فرات آنکھوں میں
پھر اس کو دامنِ دل میں کہاں کہاں رکھیں
سمیٹ سکتے ہیں جو کائنات آنکھوں میں
تمہیں تو گردشِ دوراں نے روند ڈالا ہے
رہی نہ کوئی بھی پہلی سی بات آنکھوں میں
چھوڑ گئے سب تجھ کو تیری غزلوں والے لوگ
میرے شاعر سب کے دُکھ اب تنہا بیٹھا بھوگ
عشق اور نوکری مِل کے دونوں چُوس گئے ہیں تجھ کو
تُو تو بس اب ایسے ہے جیسے گنّے کا پھوک
اس سے شکوہ کرنے کا تو حق ہی نہیں بنتا ہے
پتھر کو معلوم ہو کیسے آئینے کا روگ
دلوں میں دشمنوں کے اس طرح ڈر بول اٹھتے ہیں
گواہی کو چھپاتے ہیں، تو منظر بول اٹھتے ہیں
مِری سچائی، میری بے گناہی سب پہ ظاہر ہے
کہ اب جنگل، کنویں، صحرا، سمندر بول اٹھتے ہیں
وہ پتھر دل سہی لیکن ہمارا بھی یہ دعویٰ ہے
ہمارے لب جنہیں چھو لیں وہ پتھر بول اٹھتے ہیں
لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں
سارے منظر آئینوں سے خود مِٹا کر آئے ہیں
ایک لمحے میں کئی برسوں کے ناطے توڑ کر
سوچتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں
راستے تو کھو چکے تھے اپنی ہر پہچان تک
ہم جنازے منزلوں کے خود اٹھا کر آئے ہیں
ڈال رکھا ہے یہاں سانپوں نے ڈیرا کیا کروں
بس گیا ہے رُوح کے اندر سپیرا، کیا کروں
شہر میں لے کر تو میں نکلا ہوں اِک روشن دِیا
ہے مگر میرے تعاقب میں اَندھیرا، کیا کروں
اب نگاہوں میں کوئی چہرہ سماتا ہی نہیں
خواب کرتے ہیں اِن آنکھوں میں بسیرا، کیا کروں