کعبے میں جا کے یا کہیں پتھر تراش کر
ممکن ہو جس طرح بھی خدا کو تلاش کر
کوئی صدا ہے تُو تو مِرے دل میں ڈوب جا
ہے راز تو لبوں پہ مِرے خود کو فاش کر
وہ موم ہے اگر تو اسے دھوپ سے بچا
پتھر ہے اس کا دل تو اسے پاش پاش کر
چھاؤں کا اِک خیال سا تھا وہ بھی چھِن گیا
فیشن کسی نے کر لیا زلفیں تراش کر
اپنا نہیں تو بچوں کا احساس کر ذرا
حیدر ادب کو چھوڑ کے فکرِ معاش کر
ممکن ہو جس طرح بھی خدا کو تلاش کر
کوئی صدا ہے تُو تو مِرے دل میں ڈوب جا
ہے راز تو لبوں پہ مِرے خود کو فاش کر
وہ موم ہے اگر تو اسے دھوپ سے بچا
پتھر ہے اس کا دل تو اسے پاش پاش کر
چھاؤں کا اِک خیال سا تھا وہ بھی چھِن گیا
فیشن کسی نے کر لیا زلفیں تراش کر
اپنا نہیں تو بچوں کا احساس کر ذرا
حیدر ادب کو چھوڑ کے فکرِ معاش کر
حیدر قریشی
No comments:
Post a Comment