Monday 12 October 2015

ذرا بتلا زماں کیا ہے مکاں کے اس طرف کیا ہے

ذرا بتلا، زماں کیا ہے، مکاں کے اس طرف کیا ہے
اگر یہ سب گماں ہے، تو گماں کے اس طرف کیا ہے 
اگر پتھر سے بکھرے ہیں تو آخر یہ چمک کیسی
جو مخزن نور کا ہے، کہکشاں کے اس طرف کیا ہے
 یہ کیا رستہ ہے، آدم گامزن ہے کس مسافت میں
نہیں منزل تو پھر اِس کارواں کے اس طرف کیا ہے 
عجب پاتال ہے دروازہ و دیوار سے عاری زمیں اندر
زمینِ بے نشاں کے اس طرف کیا ہے 
تہِ آبِ رواں سُنتا ہوں یہ سرگوشیاں کیسی
سکونت کس کی ہے اور آستاں کے اس طرف کیا ہے 
سمجھتے آ رہے تھے جس خلا کو شہرِ گُم گشتہ
وہ شے کیا ہے، خلائے بیکراں کے اس طرف کیا ہے 
نہیں کھُلتا کہ آخر یہ طلسماتی تماشا سا
زمیں کے اِس طرف اور آسماں کے اس طرف کیا ہے

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment