Friday 9 October 2015

موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے

موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے
روٹھے دنیا سے جو ہم، یار منانے آئے
اچھے دن آئے تو میں نے یہ تماشا دیکھا
میرے دشمن بھی گلے مجھ کو لگانے آئے
آج مل کر میرے دشمن کا پتہ پوچھتے ہیں
مجھ سے ملنے، وہ نہ ملنے کے بہانے آئے
درد و غم اور اداسی کے سوا کون آتا
جن کو بھیجا تھا مِرے گھر میں خدا نے آئے
پھول ہی پھول کھِلے جن کی بدولت اے دوست
ان کے حصے میں نہ پھولوں کے خزانے آئے
ایدھی والوں کو سوا کوئی نہیں تھا اس کا
لوگ "مفلس" کا "جنازہ" نہ "اٹھانے" آئے
رو دیئے وہ بھی مِری موت کے بعد اے پُرنمؔ
یاد جب میری "وفاؤں" کے "فسانے" آئے

پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment