کفِ مومن سے نہ دروازۂ ایماں سے ملا
رشتۂ درد اسی دشمنِ ایماں سے ملا
اس کا رونا ہے کہ پیماں شکنی کے باوصف
وہ ستمگر اسی پیشانیٔ خندہ سے ملا
طالبِ دستِ ہوس اور کئی دامن تھے
کوئی باقی نہیں اب ترکِ تعلق کے لیے
وہ بھی جا کر صفِ احبابِ گریزاں سے ملا
کیا کہیں اس کو جو محفل میں شناسا بھی نہ تھا
کبھی خلوت میں در آیا تو دل و جاں سے ملا
میں اسی کوہ صفت خون کی اک بوند ہوں جو
ریگ زارِ نجف و خاکِ خراساں سے ملا
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment