Saturday 10 October 2015

تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں

تاب نہیں سکوں نہیں دل نہیں اب جگر نہیں
اپنی نظر کدھر اٹھے، کوئی اِدھر اُدھر نہیں
روز شب اٹھتے بیٹھتے ان کی زبان پر، نہیں
کوئی 'نہیں' کی حد نہیں، شام نہیں سحر نہیں
کوئی یہاں سے چل دیا رونقِ بام و در نہیں
دیکھ رہا ہوں گھر کو میں، گھر ہے مگر وہ گھر ہے
اتنی خبر تو ہے ضرور لے گئے وہ دل کو چھین کر
کیا ہوا اس کا پھر مآل اس کی مجھے خبر نہیں
کیوں وہ ادھر ادھر پھرے کیوں یہ حدود میں رہے
تیری نظر تو ہے نظر، میری نظر نظر نہیں
مجھ سے بگڑ کر اپنے گھر جائیے خیر جایئے
آپ نے یہ سمجھ لیا آہ میں کچھ اثر نہیں
دیر کو ہم گھٹائیں کیوں کعبہ کو ہم بڑھائیں کیوں
کیا ہے خدا کا گھر یہی، کیا وہ خدا کا گھر نہیں
پردے سے باہر آئیے رخ سے نقاب اٹھائیے
تابِ جمال لا سکے اتنی میری نظر نہیں
مجھ کو خیال روز و شب خاک رہے مزار میں
ایسی جگہ ہوں جس جگہ شام نہیں سحر نہیں
تیغ کہو، سناں کہو، قہر کہو، بلا کہو
اہل نظر کی رائے میں ان کی نظر نظر نہیں
ان میں کچھ اور بات تھی ان میں کچھ اور بات ہے
حضرتِ نوحؔ کا گماں حضرت نوحؑ پر نہیں

نوح ناروی

No comments:

Post a Comment