میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا
ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا
ہم نشیں، کیجیو تقریب تو شب باشی کی
آج کر نشے کا حیلہ میں مچل جاؤں گا
دل مِرے ضعف پہ کیا رحم تُو کھاتا ہے کہ میں
جان سے اب کے بچا ہوں تو سنبھل جاؤں گا
سیر اس کوچے کی کرتا ہوں کہ جبریل جہاں
جا کے بولا کہ بس اب آگے میں جل جاؤں گا
تنگ ہوں میں بھی اب اس جینے سے اے جی، نہ رُکا
جا نکل جا، جو تُو کہتا ہے؛ نکل جاؤں گا
شورِ محشر سے ہے پروا مجھے کیا اے واعظ
جب کہ ہمراہ لیے دل سے خلل جاؤں گا
شوخی سے پہنچے ہے جوں ہند میں طوطی، قائم
آگے سودا کے میں لے کر یہ غزل جاؤں گا
قائم چاند پوری
No comments:
Post a Comment