Thursday 28 January 2016

میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا

 میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا

ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا

ہم نشیں، کیجیو تقریب تو شب باشی کی

آج کر نشے کا حیلہ میں مچل جاؤں گا

دل مِرے ضعف پہ کیا رحم تُو کھاتا ہے کہ میں

جان سے اب کے بچا ہوں تو سنبھل جاؤں گا

سیر اس کوچے کی کرتا ہوں کہ جبریل جہاں

جا کے بولا کہ بس اب آگے میں جل جاؤں گا

تنگ ہوں میں بھی اب اس جینے سے اے جی، نہ رُکا

جا نکل جا، جو تُو کہتا ہے؛ نکل جاؤں گا

شورِ محشر سے ہے پروا مجھے کیا اے واعظ

جب کہ ہمراہ لیے دل سے خلل جاؤں گا

شوخی سے پہنچے ہے جوں ہند میں طوطی، قائم

آگے سودا کے میں لے کر یہ غزل جاؤں گا


قائم چاند پوری

No comments:

Post a Comment