Sunday, 31 January 2016

پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں

پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں
پھر کسی یاد کی تلوار سے مارا جاؤں
پھر کوئی وسعتِ آفاق پہ سایہ ڈالے
پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں
دن کے ہنگاموں میں دامن کہیں میلا ہو جائے
رات کی نقرئی آتش میں نکھارا جاؤں
خشک کھوئے ہوئے گمنام جزیرے کی طرح
درد کے کالے سمندر سے ابھارا جاؤں
اپنی کھوئی ہوئی جنت کا طلبگار بنوں
دستِ یزداں سے گنہ گار سنوارا جاؤں

عادل منصوری

No comments:

Post a Comment