غزل والوں کی جب جادو بیانی بول پڑتی ہے
حقیقت کچھ نہیں کہتی ۔۔ کہانی بول پڑتی ہے
زباں چپ ہو تو آنکھوں کی زبانی بول پڑتی ہے
محبت میں ہے اک عادت پرانی بول پڑتی ہے
امیری میں، غریبی میں، رئیسی میں، فقیری میں
کمان اٹھتی ہے تو بے بس پرندے پھڑپھڑاتے ہیں
تِری وحشت، پرندوں کی زبانی بول پڑتی ہے
کسی سے زندگی کب رخ ملا کر بات کرتی ہے
مگر ہم پر ہے اس کی مہربانی بول پڑتی ہے
غموں کی دھوپ سے ندیوں کے پانی سوکھ جاتے ہیں
مگر اشکوں کی دریا کی روانی بول پڑتی ہے
چلو مانا کسی بھی حال میں تم کچھ نہیں کہتے
مگر شاہدؔ تمہاری بے زبانی بول پڑتی ہے
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment