Friday 29 January 2016

خودبخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے

خودبخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے
کس بلا کی تمہیں جادو نظری آوے ہے
دل میں در آوے ہے ہر صبح کوئی یاد ایسے
جوں دبے پاؤں نسیمِ سحری آوے ہے
اور بھی زخم ہوئے جاتے ہیں گہرے دل کے
ہم تو سمجھے تھے تمہیں چارہ گری آوے ہے
ایک قطرہ بھی لہو جب نہ رہے سینے میں
تب کہیں عشق میں کچھ بے جگری آوے ہے
چاکِ داماں و گریباں کے بھی آداب ہیں کچھ
ہر دِوانے کو کہاں جامہ دری آوے ہے
شجرِ عشق تو مانگے ہے لہو کے آنسو
تب کہیں جا کے کوئی شاخ ہری آوے ہے
تُو کبھی راگ کبھی رنگ کبھی خوشبو ہے
کیسی کیسی نہ تجھے عشوہ گری آوے ہے
آپ اپنے کو بھلانا کوئی آسان نہیں
بڑی مشکل سے میاں بے خبری آوے ہے
صاحبو! حسن کی پہچان کوئی کھیل نہیں
دل لہو ہو تو کہیں دیدہ وری آوے ہے

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment