خودبخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے
کس بلا کی تمہیں جادو نظری آوے ہے
دل میں در آوے ہے ہر صبح کوئی یاد ایسے
جوں دبے پاؤں نسیمِ سحری آوے ہے
اور بھی زخم ہوئے جاتے ہیں گہرے دل کے
ایک قطرہ بھی لہو جب نہ رہے سینے میں
تب کہیں عشق میں کچھ بے جگری آوے ہے
چاکِ داماں و گریباں کے بھی آداب ہیں کچھ
ہر دِوانے کو کہاں جامہ دری آوے ہے
شجرِ عشق تو مانگے ہے لہو کے آنسو
تب کہیں جا کے کوئی شاخ ہری آوے ہے
تُو کبھی راگ کبھی رنگ کبھی خوشبو ہے
کیسی کیسی نہ تجھے عشوہ گری آوے ہے
آپ اپنے کو بھلانا کوئی آسان نہیں
بڑی مشکل سے میاں بے خبری آوے ہے
صاحبو! حسن کی پہچان کوئی کھیل نہیں
دل لہو ہو تو کہیں دیدہ وری آوے ہے
جاں نثار اختر
No comments:
Post a Comment