Tuesday 26 January 2016

کوئی قیمت نہ لگی اپنی خریداروں میں

کوئی قیمت نہ لگی اپنی خریداروں میں
عمر بھر خاک اڑاتے پھرے بازاروں میں
وہ تو کچھ ہم ہی تھے بیزارِ سکوتِ ساحل
ورنہ کیا زور تھا طوفان تِرے دھاروں میں 
ہے ستاروں میں گھِرا دل سا دھڑکتا ہوا چاند
یا کوئی سہمی سی جوگن ہے پرستاروں میں
وہ تو چپ چپ  سے تھے کمرے میں مگر ساری رات
جیسے سرگوشیاں ہوتی رہیں دیواروں میں
کوئی تنہائی میں بھی ساتھ رہا کرتا ہے
رات دن ہوتی ہیں سرگوشیاں دیواروں میں
انگلیاں ہم پہ اٹھاتی رہی دنیا ۔۔ اور ہم
مسکراتے رہے پھولوں کی طرح خاروں میں
لوٹنے والوں نے لوٹی ہیں بہاریں شاہدؔ
ہم تو بس مفت ہی بدنام رہے یاروں میں

شاہد کبیر 

No comments:

Post a Comment