کوئی قیمت نہ لگی اپنی خریداروں میں
عمر بھر خاک اڑاتے پھرے بازاروں میں
وہ تو کچھ ہم ہی تھے بیزارِ سکوتِ ساحل
ورنہ کیا زور تھا طوفان تِرے دھاروں میں
ہے ستاروں میں گھِرا دل سا دھڑکتا ہوا چاند
وہ تو چپ چپ سے تھے کمرے میں مگر ساری رات
جیسے سرگوشیاں ہوتی رہیں دیواروں میں
کوئی تنہائی میں بھی ساتھ رہا کرتا ہے
رات دن ہوتی ہیں سرگوشیاں دیواروں میں
انگلیاں ہم پہ اٹھاتی رہی دنیا ۔۔ اور ہم
مسکراتے رہے پھولوں کی طرح خاروں میں
لوٹنے والوں نے لوٹی ہیں بہاریں شاہدؔ
ہم تو بس مفت ہی بدنام رہے یاروں میں
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment