دن رات برستا ہو جو بادل نہیں دیکھا
آنکھوں کی طرح کوئی بھی بادل نہیں دیکھا
کیوں لوگ یہاں دیتے ہیں رشتوں کی دہائی
اس پیڑ پہ ہم نے تو کوئی پھل نہیں دیکھا
انسان درندوں کی طرح گھوم رہے ہیں
تم نے مِری آنکھوں کے قصیدے تو لکھے ہیں
لیکن مِرا بہتا ہوا کاجل نہیں دیکھا
اس نے بھی کبھی نیند سے رشتہ نہیں رکھا
میں نے بھی کوئی خواب مکمل نہیں دیکھا
انجم رہبر
No comments:
Post a Comment