Tuesday 26 January 2016

دن رات برستا ہو جو بادل نہیں دیکھا

دن رات برستا ہو جو بادل نہیں دیکھا
آنکھوں کی طرح کوئی بھی بادل نہیں دیکھا
کیوں لوگ یہاں دیتے ہیں رشتوں کی دہائی
اس پیڑ پہ ہم نے تو کوئی پھل نہیں دیکھا
انسان درندوں کی طرح گھوم رہے ہیں
شہروں کی طرح کوئی بھی جنگل نہیں دیکھا
تم نے مِری آنکھوں کے قصیدے تو لکھے ہیں
لیکن مِرا بہتا ہوا کاجل نہیں دیکھا
اس نے بھی کبھی نیند سے رشتہ نہیں رکھا
میں نے بھی کوئی خواب مکمل نہیں دیکھا

انجم رہبر

No comments:

Post a Comment