Saturday 30 January 2016

بھڑک اٹھا ہے آلاؤ تمہاری فرقت کا

بھڑک اٹھا ہے آلاؤ تمہاری فرقت کا
نہیں ہے تم پہ اثر پھر بھی محبت کا
معانی ہی تو نہیں کیا بدل گئے اس کے
وفا کو نام جو دیتے ہو تم اذیت کا
تمہی بتاؤ مِرے ہو گے اور کیسے تم
علاجِ عجز بھی نکلا نہیں رعونت کا
کسی کو پا لیا تم نے تو چھوڑ کر مجھ کو
کوئی علاج تو کر دو مِری بھی حسرت کا

ابرار حامد 

No comments:

Post a Comment