اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا ۔۔۔ تو کدھر جائیں گے
تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی
تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرقِ شرم سے تر جائیں گے
نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روشِ تیر نظر جائیں گے
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
ان کو مے خانے میں لے آؤ، سنور جائیں گے
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment