پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
یہ مقتل بھی ہے اور کنجِ اماں بھی
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاق
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment