بے چین طبعیت میں سبھاؤ کے لیے ہے
اک درد ہے اور درد رچاؤ کے لیے ہے
تھا چشمہ جو آنکھوں میں سلگنے کے لیے تھا
ہے صحرا جو سینے میں بہاؤ کے لیے ہے
تاجر کی طرح تُو نے تعین کِیا میرا
کیا اور نہیں کوئی تجھے ملتا یہاں پر
کیا میرا ہی دل تیرے الاؤ کے لیے ہے
یہ شام، وہ سورج، یہ محبت، وہ زمانہ
یہ ساری کتھا مجھ پہ دباؤ کے لیے ہے
اب تو یہی لگتا ہے کہ یہ بستئ مظلوم
گھیراؤ کی خاطر ہے جلاؤ کے لیے ہے
ہلکان ہوئی انت تو جانا کہ مِری جاں
یہ جان مِری آپ کے گھاؤ کے لیے ہے
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment