Friday 22 January 2016

بے چین طبعیت میں سبھاؤ کے لئے ہے

بے چین طبعیت میں سبھاؤ کے لیے ہے
اک درد ہے اور درد رچاؤ کے لیے ہے
تھا چشمہ جو آنکھوں میں سلگنے کے لیے تھا
ہے صحرا جو سینے میں بہاؤ کے لیے ہے
تاجر کی طرح تُو نے تعین کِیا میرا
جیسے میرا ہونا تیرے بھاؤ کے لیے ہے
کیا اور نہیں کوئی تجھے ملتا یہاں پر
کیا میرا ہی دل تیرے الاؤ کے لیے ہے
یہ شام، وہ سورج، یہ محبت، وہ زمانہ
یہ ساری کتھا مجھ پہ دباؤ کے لیے ہے
اب تو یہی لگتا ہے کہ یہ بستئ مظلوم
گھیراؤ کی خاطر ہے جلاؤ کے لیے ہے
ہلکان ہوئی انت تو جانا کہ مِری جاں
یہ جان مِری آپ کے گھاؤ کے لیے ہے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment