شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا
جانے کیا اضطراب میں دیکھا
گلکدوں کے طلسم بھول گئے
وہ تماشا نقاب میں دیکھا
آج ہم نے تمام حسنِ بہار
سر کھلے، پا برہنہ، کوٹھے پر
رات اسے ماہتاب میں دیکھا
فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ
جیسے اک خواب، خواب میں دیکھا
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment