اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی! چھوڑ دے پیچھا مِرا، میں باز آیا
مژدہ اے روح تجھے عشق سا دمساز آیا
نکہتِ فقر گئی ... شاہِ سر افراز آیا
پاس اپنے جو نیا کوئی فسوں ساز آیا
پیتے پیتے اک عمر کٹی، اس پر بھی
پینے والے تجھے پینے کا نہ انداز آیا
لے رہا ہے درِ میخانہ پہ سُن گُن واعظ
رِندو! ہشیار، کہ اک مفسدہ پرداز آیا
دل ہو یا روح و جگر کان کھڑے سب کے ہوئے
عشق آیا ۔۔ کہ کوئی مفسدہ پرداز آیا
دیکھ لو اشکِ تواتر کو نہ پوچھو مِرا حال
چپ رہو، چپ رہو، اس بزم میں غماز آیا
دیکھیے نالۂ دل جا کے لگائے کس سے
جس کا کھٹکا تھا ۔۔ وہی مفسدہ پرداز آیا
دل جو گھبرائے قفس میں تو ذرا پر کھولوں
زور اتنا بھی نہ اے حسرتِ پرواز آیا
رِند پھیلائے ہیں چُلۤو کو، تکلف کیسا
ساقیا! ڈھال بھی دے جامِ خدا ساز آیا
نہ گیا پر نہ گیا شمع کا رونا کسی حال
گو کہ پروانۂ مرحوم سا دمساز آیا
اک چپکی میں گلو تم نے بجائے نکالے سب کام
غمزہ آیا، نہ کرشمہ، نہ تمہیں ناز آیا
بے انیس اب چمن نظم ہے ویراں اے شادؔ
ہائے، ایسا نہ کوئی زمزمہ پرداز آیا
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment