Friday 29 January 2016

زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا

زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا کہ ابھی وقت ہے سنبھلنے کا
بہار آئے، چلی جائے، پھر چلی آئے
مگر یہ درد کا موسم نہیں بدلنے کا
یہ ٹھیک ہے، ستاروں پہ گھوم آئے ہم
مگر کسے ہے سلیقہ زمیں پہ چلنے کا
پھرے ہیں راتوں کو آوارہ ہم، تو دیکھا ہے
گلی گلی میں سماں چاند کے نکلنے کا
سوائے گردِ ملامت ملا بھی کیا ہم کو
بہت تھا شوق زمانے کے ساتھ چلنے کا
ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ جب تلک ہم ہیں
رواجِ چاک گریباں نہیں بدلنے کا

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment