زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا کہ ابھی وقت ہے سنبھلنے کا
بہار آئے، چلی جائے، پھر چلی آئے
مگر یہ درد کا موسم نہیں بدلنے کا
یہ ٹھیک ہے، ستاروں پہ گھوم آئے ہم
پھرے ہیں راتوں کو آوارہ ہم، تو دیکھا ہے
گلی گلی میں سماں چاند کے نکلنے کا
سوائے گردِ ملامت ملا بھی کیا ہم کو
بہت تھا شوق زمانے کے ساتھ چلنے کا
ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ جب تلک ہم ہیں
رواجِ چاک گریباں نہیں بدلنے کا
جاں نثار اختر
No comments:
Post a Comment