Sunday 31 January 2016

ہجر بھی وصل کی مانند مزا دیتا ہے

ہجر بھی وصل کی مانند مزا دیتا ہے
جب تصور تِری تصویر بنا دیتا ہے
تجھ سے بچھڑا ہوں تو یہ راز کھلا ہے مجھ پر
درد بڑھتا ہے جو حد سے، تو مزا دیتا ہے
تجھ کو معلوم ہے کیا مست نگاہوں والے
کوئی چپ چاپ تجھے روز صدا دیتا ہے
دل سرِ دشتِ وفا یاد سہارا کر کے
اک تماشا سا سرِ شام لگا دیتا ہے
عشق الزام نہیں، درد نہیں، ہار نہیں
عشق اعزاز ہے ہمدم! جو خدا دیتا ہے
تھام کر ہاتھ تِرے در سے اٹھاتا ہے شعور
پر جنوں پھر سے تِرے در پہ بٹھا دیتا ہے
خواب لاتے ہیں تِرے حسن کو یکجا کر کے
ہوش نا اہل ہے ہر نقش گنوا دیتا ہے
کوئی کب زینؔ نبھا پایا ہے ٹوٹے رشتے
کون پلکوں کے دریچوں سے صدا دیتا ہے

اشتیاق زین

No comments:

Post a Comment