Wednesday 27 January 2016

کچھ ایسا اترا میں اس سنگ دل کے شیشے میں

کچھ ایسا اترا میں اس سنگدل کے شیشے میں 
کہ چند سانس بھی آئے نہ اپنے حصے میں 
وہ ایک ایسے سمندر کے روپ میں آیا 
کہ عمر کٹ گئی جس کو عبور کرنے میں 
مجھے خود اپنی طلب کا نہیں ہے اندازہ 
یہ کائنات بھی تھوڑی ہے میرے کاسے میں 
ملی تو ہے مِری تنہائیوں کو آزادی 
جڑی ہوئی ہیں کچھ آنکھیں مگر دریچے میں 
غنیم بھی کوئی مجھ کو نظر نہیں آتا 
گھِرا ہوا بھی ہوں چاروں طرف سے خطرے میں 
مِرا شعور بھی شاید وہ طفل کمسن ہے 
بچھڑ گیا ہے جو گمراہیوں کے میلے میں 
ہنر ہے شاعری، شطرنج شوق ہے میرا 
یہ جائیداد مظفرؔ ملی ہے ورثے میں

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment