ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر تم پہروں پہروں روؤ ہو
وہ بھی کوئی ہمیں جیسا ہے کیا تم اس میں دیکھو ہو
جن کو اتنا یاد کرو ہو، چلتے پھرتے سائے تھے
ان کو مِٹے تو مدت گزری نام و نشاں کیا پوچھو ہو
جانے بھی دو نام کسی کا آ گیا باتوں باتوں میں
کیا غمِ دوراں کی پرچھائیں تم پر بھی پڑ جائے ہے
کیا یاد آ جائے ہے یکا یک، کیوں اداس ہو جاؤ ہو
اتنی وحشت، اتنی وحشت، صدقے اچھی آنکھوں کے
تم نہ ہرن ہو میں نہ شکاری، دور اتنا کیوں بھاگو ہو
میرے نغمے کس کے لیے ہیں خود مجھ کو معلوم نہیں
کبھی نہ پوچھو یہ شاعر سے تم کس کا گن گاؤ ہو
پلکیں بند، السائی زلفیں، نرم سیج پر بکھری ہوئی
ہونٹوں پراک موجِ تبسم، سوؤ ہو، یا جاگو ہو
چپ چپ سی ہے فضائے محبت کچھ نہ کہے ہے خلوتِ راز
نرم اشاروں سے آنکھوں کے بات کہاں پہنچاؤ ہو
اکثر گہری سوچ میں ان کو کھویا کھویا پاویں ہیں
اب ہے فراقؔ کا کچھ روزوں سے جو عالم کیا پوچھو ہو
فراق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment