Tuesday, 26 January 2016

ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر تم پہروں پہروں روؤ ہو

ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر تم پہروں پہروں روؤ ہو
وہ بھی کوئی ہمیں جیسا ہے کیا تم اس میں دیکھو ہو
جن کو اتنا یاد کرو ہو، چلتے پھرتے سائے تھے
ان کو مِٹے تو مدت گزری نام و نشاں کیا پوچھو ہو
جانے بھی دو نام کسی کا آ گیا باتوں باتوں میں
ایسی بھی کیا چپ لگ جانا کچھ تو کہو کیا سوچو ہو
کیا غمِ دوراں کی پرچھائیں تم پر بھی پڑ جائے ہے
کیا یاد آ جائے ہے یکا یک، کیوں اداس ہو جاؤ ہو
اتنی وحشت، اتنی وحشت، صدقے اچھی آنکھوں کے
تم نہ ہرن ہو میں نہ شکاری، دور اتنا کیوں بھاگو ہو
میرے نغمے کس کے لیے ہیں خود مجھ کو معلوم نہیں 
کبھی نہ پوچھو یہ شاعر سے تم کس کا گن گاؤ ہو
پلکیں بند، السائی زلفیں، نرم سیج پر بکھری ہوئی
ہونٹوں پراک موجِ تبسم، سوؤ ہو، یا جاگو ہو
چپ چپ سی ہے فضائے محبت کچھ نہ کہے ہے خلوتِ راز
نرم اشاروں سے آنکھوں کے بات کہاں پہنچاؤ ہو
اکثر گہری سوچ میں ان کو کھویا کھویا پاویں ہیں
اب ہے فراقؔ کا کچھ روزوں سے جو عالم کیا پوچھو ہو

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment