Thursday, 28 January 2016

بے یار روزعید شب غم سے کم نہیں

بے یار روزِعید، شبِ غم سے کم نہیں
جامِ شراب،  دیدۂ پرنم سے کم نہیں
دیتا ہے دَورِ چرخ کسے فرصتِ نشاط
ہو جس کے پاس جام وہ اب جَم سے کم نہیں 
اس زلفِ فتنہ زا کے لیے اے مسیح دم 
کچھ دستِ شانہ پنجۂ مریمؑ سے کم نہیں
زیبا ہے روئے زرد پر کیا اشکِ لالہ گوں
اپنی خزاں بہار کے موسم سے کم نہیں
سرعت ہے نبض کی رگِ سنگِ مزار میں
دل کی تپش کچھ اب بھی تپِ غم سے کم نہیں
وحشی کو تِری چشم کے مژگانِ ہر غزال
صحرا میں تیز ناخنِ ضیغم سے کم نہیں
ہوتی ہے جمعِ زر سے پریشانی آخرش
دِرہم کی شکل صورتِ دَرہم سے کم نہیں
ساقی! مِلے ہزار فلاطوں ہیں خاک میں
جو خُم تہی ہے قالبِ آدمؑ سے کم نہیں
اس حور وش کا گھر مجھے جنت سے ہے سَوا
لیکن، رقیب ہو تو جہنم سے کم نہیں
شورابۂ سرشک سے دھوتا ہُوں زخمِ دل
تیزاب میرے حق میں یہ مرہم سے کم نہیں
ہاتھوں سے تیرے پارۂ الماس و زخمِ دل
مجھ کو تو جلوۂ گُل و شبنم سے کم نہیں
سمجھوں غنیمت اس دمِ خنجر کو کیوں نہ میں
اس بے کسی میں یہ، مجھے ہمدم سے کم نہیں
اے ذوقؔ کس کو چشمِ حقارت سے دیکھیے
سب ہم سے ہیں زیادہ، کوئی ہم سے کم

ابراہیم ذوق 

No comments:

Post a Comment