Tuesday 26 January 2016

آج بھی قافلہ عشق رواں ہے کہ جو تھا

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے کہ جو تھا
آج بھی عشق لٹاتا دل و جاں ہے کہ جو تھا
آج بھی حسن وہی جنسِ گراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا
منزلیں عشق کی تا حدِ نظر سُونی ہیں
کوئی رہرو نہ یہاں ہے نہ وہاں کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پر اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آنکھ جھپکی، کہ ادھر ختم ہوا روزِ وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا
کب ہے انکار تِرے لطف و کرم سے، لیکن
تُو وہی دشمنِ دل، دشمنِ جاں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ، لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
پھر سرِ مئے کدۂ عشق ہے اک بارشِ نور
چھلکے جاموں سے چراغاں کا سماں ہے کہ جو تھا
آج بھی آگ دبی ہے دلِ انساں میں فراقؔ
آج بھی سینوں سے اٹھتا وہ دھواں ہے کہ جو تھا

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment