Monday, 25 January 2016

شہر دل کی گلیوں میں

شہرِ دل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گداز تنہائی
روح و جاں کو ڈستی ہے
روح جاں میں بستی ہے
شہرِ دل کی گلیوں میں
طاقِ شب کی بیلوں پر
شبنمیں سرشکوں کی
بے قرار لوگوں نے
بے شمار لوگوں نے
یادگار چھوڑی ہے
اتنی بات تھوڑی ہے
صد ہزار باتیں تھیں
حیلۂ شکیبائی تھیں
صورتوں کی زیبائی
قامتوں کی رعنائی
اِن سیاہ راتوں میں
ایک بھی نہ یاد آئی
جا بجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں
چاند کے تمنائی
یہ نگر کبھی پہلے
اس قدر نہ ویراں تھا
کہنے والے کہتے ہیں
قریۂ نِگاراں تھا
خیر اپنے جینے کا
یہ بھی ایک ساماں تھا
آج دل میں ویرانی
ابر بن کے گھِر آئی
آج دل کو کیا کہیے
باوفا، نہ ہرجائی
پھر بھی لوگ دِیوانے
آ گئے ہیں سمجھانے
اپنی وحشتِ دل کے
بن لیے ہیں افسانے
خوش خیال دنیا نے
گرمیاں تو جاتی ہیں
وہ رتیں بھی آتیں ہیں
جب ملول راتوں میں
دوستوں کی باتوں میں
جی نہ چین پائے گا
اور اوبھ جائے گا
آہٹوں سے گونجے گی
شہرِ دل کی پہنائی
اور چاند راتوں میں
چاندنی کے شیدائی
ہر بہانے نکلیں گے
آزمانے نکلیں گے
آرزو کی گیرائی
ڈھونڈنے کو رسوائی
سرد سرد راتوں میں
زرد چاند بخشے گا
بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی
شہرِ دل کی گلیوں میں

ابن انشا

No comments:

Post a Comment