Tuesday 26 January 2016

کردار خوش مقام کی سچائی دے گیا

کردار خوش مقام کی سچائی دے گیا 
جو دار کو حیات کی انگڑائی دے گیا 
بکھرا کچھ اس طرح کہ فلک تک ہوا بلند
میرا وجود موت کو اونچائی دے گیا 
کہتے ہیں وقت ہوتا ہے مرہم، مگر غلط 
یہ اور میرے زخموں کو گہرائی دے گیا 
میں نے تو کی تھی گرم ہواؤں کی آرزو 
موسم ستم ظریف تھا، پُروائی دے گیا 
کھا کھا کے تیز دھوپ پگھل جاؤں ایک دن 
وہ سائباں کی جگہ انگنائی دے گیا 
صادقؔ خلوصِ دوست کا احسان مند ہوں 
جو میرے شعر شعر کو اچھائی دے گیا

صادق اندوری

No comments:

Post a Comment