کردار خوش مقام کی سچائی دے گیا
جو دار کو حیات کی انگڑائی دے گیا
بکھرا کچھ اس طرح کہ فلک تک ہوا بلند
میرا وجود موت کو اونچائی دے گیا
کہتے ہیں وقت ہوتا ہے مرہم، مگر غلط
میں نے تو کی تھی گرم ہواؤں کی آرزو
موسم ستم ظریف تھا، پُروائی دے گیا
کھا کھا کے تیز دھوپ پگھل جاؤں ایک دن
وہ سائباں کی جگہ انگنائی دے گیا
صادقؔ خلوصِ دوست کا احسان مند ہوں
جو میرے شعر شعر کو اچھائی دے گیا
صادق اندوری
No comments:
Post a Comment