شہر تا شہر پر ایک شور سا داناؤں میں
باڑھ کیا آئی ہے دیوانوں کی صحراؤں میں
آج سوکھے ہوئے پتے سے بھی کم قیمت ہیں
نام کل تک تھا ہمارا ۔۔ چمن آراؤں میں
میری غیرت پہ ہے انگشت بدنداں ہر شخص
اس کو کیا کیجیے، اک نقش بھی روشن نہ ہوا
مختلف رنگ بھرے ۔۔ ہم نے تمناؤں میں
غم کے شعلوں کو ہوا دیتے ہو تم کیا مطلب
عمر بھر جلتا رہوں آگ کے دریاؤں میں
کار فرما جو رہا ہاتھ کسی کا صادقؔ
کھل اٹھے پھول سلگتے ہوئے صحراؤں میں
صادق اندوری
No comments:
Post a Comment