Tuesday, 26 January 2016

شہر تا شہر پر ایک شور سا داناؤں میں

شہر تا شہر پر ایک شور سا داناؤں میں 
باڑھ کیا آئی ہے دیوانوں کی صحراؤں میں 
آج سوکھے ہوئے پتے سے بھی کم قیمت ہیں 
نام کل تک تھا ہمارا ۔۔ چمن آراؤں میں 
میری غیرت پہ ہے انگشت بدنداں ہر شخص 
’اب کے ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں‘
اس کو کیا کیجیے، اک نقش بھی روشن نہ ہوا 
مختلف رنگ بھرے ۔۔ ہم نے تمناؤں میں 
غم کے شعلوں کو ہوا دیتے ہو تم کیا مطلب
عمر بھر جلتا رہوں آگ کے دریاؤں میں 
کار فرما جو رہا ہاتھ کسی کا صادقؔ 
کھل اٹھے پھول سلگتے ہوئے صحراؤں میں

صادق اندوری

No comments:

Post a Comment