Saturday 30 January 2016

تپش کا ہر حوالہ نار زادہ چھین لیتا ہے

تپش کا ہر حوالہ نار زادہ چھین لیتا ہے
ٹھٹھرتی رات میں ہم سے لبادہ چھین لیتا ہے
طلب سے بڑھ کے دیتا ہے کوئی بنیا ہمیں قرضہ
ہمارے سیر ہونے پر افادہ چھین لیتا ہے
جسے بھی مدتوں محروم رکھا جائے روٹی سے
وہ موقعہ ہاتھ آنے پر زیادہ چھین لیتا ہے
کوئی لکھتے ہوئے تھکتا نہیں اس عمر کے پرچے
کسی سے ممتحن اوراقِ سادہ چھین لیتا ہے
نفاظِ حبس میں اخترؔ بہاریں کب پنپتی ہیں
یہ قاتل تو ہوا کا استفادہ چھین لیتا ہے

اختر عثمان

No comments:

Post a Comment