تپش کا ہر حوالہ نار زادہ چھین لیتا ہے
ٹھٹھرتی رات میں ہم سے لبادہ چھین لیتا ہے
طلب سے بڑھ کے دیتا ہے کوئی بنیا ہمیں قرضہ
ہمارے سیر ہونے پر افادہ چھین لیتا ہے
جسے بھی مدتوں محروم رکھا جائے روٹی سے
کوئی لکھتے ہوئے تھکتا نہیں اس عمر کے پرچے
کسی سے ممتحن اوراقِ سادہ چھین لیتا ہے
نفاظِ حبس میں اخترؔ بہاریں کب پنپتی ہیں
یہ قاتل تو ہوا کا استفادہ چھین لیتا ہے
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment