Thursday, 28 January 2016

سورج کا سفر ختم ہوا رات نہ آئی

سورج کا سفر ختم ہوا ۔۔۔ رات نہ آئی
حصے میں مِرے خوابوں کی سوغات نہ آئی
موسم ہی پہ ہم کرتے رہے تبصرہ تا دیر
دل جس سے دُکھے ایسی کوئی بات نہ آئی
یوں ڈور کو ہم وقت کی پکڑے تو ہوئے تھے
ایک بار مگر چھُوٹی ۔۔ تو پھر ہاتھ نہ آئی
ہمراہ کوئی اور نہ آیا ۔۔۔ تو گِلا کیا
پرچھائیں بھی جب میری مِرے ساتھ نہ آئی
ہر سمت نظر آتی ہیں بے فصل زمینیں
اس سال بھی اس شہر میں برسات نہ آئی

شہریار خان

No comments:

Post a Comment