Sunday, 24 January 2016

روز اک شخص چلا جاتا ہے خواہش کرتا

روز اک شخص چلا جاتا ہے خواہش کرتا
ابھی آ جائے گا بادل کوئی ۔۔ بارش کرتا
گھر سے نکلا تو جہاں زاد خدا اتنے تھے
میں انا زاد بھی کس کس کی پرستش کرتا
ہم تو ہر لفظ میں جاناں تِری تصویر ہوئے
اس طرح کون سا آئینہ ۔۔ ستائش کرتا
کسی وحشت زدہ آسیب کی مانند ہوں میں
اک مکاں میں کئی ناموں سے رہائش کرتا
اک نہ اک دن تو یہ دیوارِ قفس گرنی تھی
میں نہ کرتا ۔۔ تو کوئی اور یہ شورش کرتا
سب اندھیرے میں ہیں اک اپنے مکاں کی خاطر
کیا ہواؤں سے چراغوں کی سفارش کرتا
اور کیا مجھ سے تِری کوزہ گری چاہتی ہے
میں یہاں تک تو چلا آیا ہوں گردش کرتا
ان زمینوں ہی پہ کیا خوشۂ گندم کے لیے
آسمانوں سے چلا آیا ہوں ۔۔ سازش کرتا

رضی اختر شوق 

No comments:

Post a Comment