Thursday 28 January 2016

گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں

گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں
فرصتِ شوق بن گئی دیوار
اب کہیں بھاگنے کا رستہ نہیں
ہوش کی تلخیاں مٹیں کیسے
جتنی پیتا ہوں، اتنا نشہ نہیں
دل کی گہرائیوں میں ڈوب کے دیکھ
کوئی نغمہ، خوشی کا نغمہ نہیں
غم بہر رنگ دل کشا ہے، مگر
سننے والوں کو تابِ نالہ نہیں
مجھ سے کہتی ہے موجِ صبحِ نشاط
پھول خیمہ، ہے پیش خیمہ نہیں
ابھی وہ رنگ دل میں پیچاں ہیں
جنہیں آواز سے علاقہ نہیں
ابھی وہ دشت منتظر ہیں مِرے
جن پہ تحریر پائے ناقہ نہیں
یہ اندھیرے سلگ بھی سکتے ہیں
تیرے دل میں مگر وہ شعلہ نہیں
راکھ کا ڈھیر ہے وہ دل ناصرؔ
جس کی دھڑکن صدائے تیشہ نہیں

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment