Saturday 30 January 2016

بپھری لہریں رات اندھیری اور بلا کی آندھی ہے

بپھری لہریں، رات اندھیری اور بلا کی آندھی ہے 
گردابوں نے بھی گھیرا ہے، ناؤ بھی ٹوٹی پھوٹی ہے
کس نے رکھ ڈالے انگارے دل سی شاخ کی آنکھوں پر
وہ کیوں بھولا یہ خوشیوں کے پھول کھلانے والی ہے
جس کو تیرا ساتھ ملا وہ خوش نہ رہے کیوں پھولوں سا
تیرا تو چھو لینا تک بھی ہجر کے روگ میں شافی ہے
حد میں ہو تو پیار ہے اچھا، ورنہ یہ بھی زحمت ہے
جیسے اک چنگاری بھڑکے تو جنگل پہ بھاری ہے 

ابرار حامد 

No comments:

Post a Comment