ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر
یہ کون چھپ گیا ہے ستارے اچھال کر
ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر
خانہ خرابیوں میں تِرا بھی پتہ نہیں
جھلسا گیا ہے کاغذی چہروں کی داستاں
جلتی ہوئی خموشیاں لفظوں میں ڈھال کر
یہ پھول خود ہی سوکھ کر آئیں گے خاک پر
تُو اپنے ہاتھ سے نہ انہیں پائمال کر
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment